اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
کرتوت کے نتیجے میں آنے والی قحط سالی سے پوری قوم متأثر اور پریشان ہوتی ہے۔برکت سے محرومی قرآنِ کریم میں برکت کا حق دار اہل ایمان اور اصحاب تقویٰ ہی کو قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا گیا: وَلَوْ أَنَّ اَہْلَ الْقُریٰ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ۔ (الاعراف: ۹۶) ترجمہ: اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے، تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ مولانا دریابادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مؤمنین متقین کے لئے غیب سے کارسازیاں ہوتی ہیں ، اور برکاتِ سماوی وارضی سے مراد بھی وہ کل چیزیں ہیں جو انجام کار کے لحاظ سے مبارک اور مفید ہوتی ہیں ، ’’فتح برکات‘‘ سے مراد ہر امر میں آسانیاں پیدا کرنا ہے‘‘۔ (تفسیر ماجدی: ۲؍۱۹۶) معلوم ہوا کہ بدکار وگنہ گار افراد برکاتِ الٰہیہ سے محروم رہتے ہیں ، بے برکتی ان کے ہر عمل میں ظاہر ہوتی ہے، چناں چہ مال کے افراط کے باوجود نہ انہیں اپنے کام پورے ہوتے معلوم ہوتے ہیں ، نہ اپنے مقاصد حاصل ہوتے نظر آتے ہیں ، وہ قرض کی لعنت میں مبتلا رہتے ہیں ، اور مستقل افکار میں گھرے رہتے ہیں ۔ہر میدانِ زندگی میں ناکامی بدکاری کا ایک وبال یہ بھی ہے کہ تمام تر جدوجہد، کدوکاوش اور محنتوں کے باوجود انسان کام یابی کی منزل طے نہیں کرپاتا،پورا ہوتا کام بھی رک جاتا ہے، قدم قدم پر رکاوٹیں دامن گیر ہوجاتی ہیں ، جو کام بھی وہ شروع کرتا ہے، بداعمالی کی نحوست اسے گھن کی طرح چاٹ ڈالتی ہے، اور اس کے نصیب میں نامرادی اور محرومی کے سوا کچھ نہیں آتا، دنیا کے