اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
کی یہ لعنت لڑکی کے اولیاء کو حرام طریقوں سے کسب معاش کی راہوں پر لے جاتی ہے یا پھر وہ قرض کے ایسے بوجھ میں دب جاتے ہیں کہ سر اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ اسلام اس رسم بد کا خاتمہ اسی لئے چاہتا ہے؛ تاکہ نکاح کا عمل آسان ہوسکے، سماج کے افراد ضیق، پریشانی، بحران اور معصیت کی ہر لعنت سے محفوظ رہ سکیں ، لڑکی والوں کی طرف سے دعوت کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں ہے، یہ زیادہ سے زیادہ مباح کہی جاسکتی ہے، اس میں اسراف سے بچنے اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے بارات کا التزام غیر شرعی ہے، اس سے اجتناب ہونا چاہئے۔ولیمہ اور اسراف اسلام نے ولیمہ کو سنت قرار دیا ہے، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نکاح کا اعلان اور تشہیر ہوجاتی ہے جو بجائے خود مطلوب شرعی ہے، اور دوسروں کو نکاح کی ترغیب بھی ملتی ہے، ولیمہ کا مطلب صرف یہ ہے کہ انسان اپنی خوشی کے اظہار کے لئے حسب وسعت مخصوص احباب کو بلاکر کچھ کھلادے، اسراف اور فضول خرچی، اور اپنی شوکت ودولت کے مظاہرے کے لئے دعوتِ عام اور طرح طرح کے کھانوں کا نظم، روح شریعت سے ہم آہنگ عمل نہیں ہے۔ آج ہمارے سماج میں ولیمہ کی دعوتوں میں اس قدر تکلفات درآئے ہیں کہ اوسط وادنی آمدنی والے افراد کے لئے نکاح مشکل ہوتا جارہا ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ اصولی ہدایت دی گئی ہے: وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً، اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ، وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہٖ کَفُوْراً۔ (الاسراء ۲۶-۲۷) ترجمہ: فضول خرچی مت کرو، فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ احادیث میں دعوتِ ولیمہ میں اسراف سے ممانعت آئی ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود ص آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں :