اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کی صداقت مسلم ہے: مَا تَشِیْعُ الْفَاحِشَۃُ فِیْ قَوْمٍ قَطُّ اِلاَّ عَمَّہُمُ الْبَلائُ۔ (ایضاً) ترجمہ: جس قوم میں بھی بے حیائی عام ہوجاتی ہے اس پر آفات وبلیات کا عمومی نزول ہونے لگتا ہے۔نفسیاتی مشکلات بدکار اور شہوت پرست افراد بالعموم نفسیاتی مشکلات میں مبتلا رہتے ہیں ، قلبی بے اطمینانی، بے سکونی، اور دلی مسرت وراحت سے محرومی ان کے ساتھ چمٹی رہتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ جو بندۂ مؤمن اللہ کو راضی کرنے کی نیت سے اللہ کی اطاعت میں مشغول رہتا ہے، بظاہر وہ کتنی ہی دنیوی تنگیوں میں گھرا ہوا کیوں نہ ہو؟ اور دنیا والوں سے الگ تھلک کیوں نہ ہو؟ مگر وہ روئے زمین کا انتہائی خوش قسمت انسان ہے، اور اسے اطمینانِ قلب، انشراحِ صدر، قلبی سرور وراحت کی وہ دولت حاصل ہے جو بے بہا بھی ہے اور قابل رشک بھی۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیَاۃً طَیِّبَۃً، وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ (النحل: ۹۷) ترجمہ: جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مؤمن ہو، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے، اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔ اس آیت میں پاکیزہ زندگی کے ضمن میں دنیا میں سعادت کی تمام شکلیں ، قلبی اطمینان اور سکون وجمعیتِ خاطر کی تمام قسمیں ، طاعات کی توفیق اور نورانیتِ قلب کی دولتیں آجاتی ہیں ۔ اسی حقیقت کو یوں بھی بیان فرمایا گیا ہے: