اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
دل کی ظلمت اور سیاہی حضرت حذیفہ ص آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں : تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلیَ الْقُلُوْبِ، فَأَیُّ قَلْبٍ أُشْرِ بَہَا نُکِتَ فِیْہِ نُکْتَۃٌ سَوْدَائُ، وَأَیُّ قَلْبٍ أَنْکَرَہَا نُکِتَ فِیْہِ نُکْتَۃٌ بَیْضَائُ۔ (مسلم: کتاب الایمان،باب رفع الامانۃ) ترجمہ: دلوں پر فتنے پیش کئے جائیں گے، جو دل فتنے میں لت پت ہوجائے اس میں سیاہ داغ لگادیا جائے گا اور جو دل فتنے کو قبول کرنے سے انکار کردے اس میں سفید روشن نشان لگادیا جائے گا۔ یہ ایک طویل حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دل کی مثال ایک کوزے کی سی ہے، جسے الٹ دیا جائے، تو اندر کی سب چیزیں باہر آجاتی ہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی انسان خواہش نفس کا پیروکار بن جائے اور گناہوں کا ارتکاب کرنے لگے تو ہر گناہ کے ساتھ اس کے دل میں ایک ظلمت اور سیاہی پیدا ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ اسلام کا نور اس کے اندرون سے رخصت ہونے لگتا ہے۔ امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’گناہ گار وبدکار انسان کے دل میں ایک وحشت اور ظلمت پیدا ہوجاتی ہے، گناہ میں لذت نفس اور تکمیل شہوت کا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی سامان ہو، مگر ہر لذت اس ظلمت کے آگے ہیچ ہے، مگر یہ ظلمت ہر ایک کو نہیں محسوس ہوتی، اسے وہی محسوس کرسکتا ہے جس کا دل بالکل مردہ نہ ہوا ہو۔ جس کے دل میں رمق حیات باقی ہو وہ گناہ کی ظلمت اپنے دل پر ایسی ہی محسوس کرتا ہے، جیسے رات کی تاریکی محسوس ومشاہد ہوتی ہے، پھر یہ ظلمت بڑھتی جاتی ہے، اور باطن کی ظلمت کا اثر ظاہر اور چہرے پر بھی نمایاں ہونے لگتا ہے‘‘۔ (الداء والدواء ۸۶-۸۷) بدکاروں کا حال یہی ہوتا ہے کہ فسق وفجور کا کوئی مقام اور موقع ان سے بچتا نہیں ہے، گناہ کی کوئی حرکت ان سے چھوٹنے نہیں پاتی ہے، چناں چہ اللہ ان کے دلوں کو ظلمت زدہ اور