اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
طلاق کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ازدواجی زندگی تلخ ہونے لگتی ہے، دل اس طرح پھٹ جاتے ہیں کہ جڑنے کا امکان باقی نہیں رہتا، تمام تدبیریں بے اثر ہوجاتی ہیں ، نکاح کی اصل روح -سکون ومودت- ختم ہوجاتی ہے، گویا نکاح مردہ ہونے لگتا ہے، تو ایسے حالات کے لئے اسلام نے طلاق کا حکم مشروع کیا ہے؛ تاکہ مرد وعورت الگ ہوسکیں ، اور اپنا ہم مزاج جوڑ تلاش کرکے سکون کی زندگی بسر کرسکیں ، طلاق کی تمام اقسام وتفصیلات احادیث وفقہ کے ذخیرے میں موجود ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ اگر طلاق کی مشروعیت نہ ہوتی تو بہت سے افراد تلخ ازدواجی زندگی سے مجبور ہوکر ظلم، بدکاری اور حرام کی راہوں پر چلنے لگتے اور پورا معاشرہ بگاڑ کا مرکب بن جاتا۔خلع جس طرح مرد کو حق طلاق حاصل ہے، اسی طرح مرد سے نباہ نہ ہونے کی آخری صورت میں عورت کو بھی شریعت نے یہ اجازت دی ہے کہ وہ خلع لے سکتی ہے، اور مرد سے الگ ہوسکتی ہے۔ حضرت عمر صکے دورمیں ایک عورت نے اپنے شوہر کی شکایت کی، آپ نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ مصر رہی کہ شوہر سے الگ ہونا ہے، بالآخر کانوں کی بالیوں کے عوض معاملہ طے ہوا، اور رشتہ ختم ہوا۔ حاصل یہ ہے کہ طلاق، تفریق اور خلع کی شرعی اجازت اسی لئے ہے کہ مرد وعورت نباہ نہ ہوسکنے کی حالت میں الگ ہوجائیں ؛ تاکہ وہ مناسب رشتہ کرکے اپنی عفت کا تحفظ کرسکیں ، ورنہ سابق رشتے میں بندھے رہنے کے ساتھ تلخیوں کے ماحول میں وہ سکون سے محروم رہیں گے اور بالآخر جنسی جذبات زور آور ہوں گے تو خدا نخواستہ حرام میں مبتلا بھی ہوسکتے ہیں ۔ ،l،