اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
وَہُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَعْفُوْ عَنِ السَّیِّئَاتِ۔ (الشوریٰ: ۲۵) ترجمہ: وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے، اور برائیوں سے درگذر فرماتا ہے۔ حدیث نبوی میں ہر فرزند آدم کو خطاکار اور توبہ کرنے والے کو ہر خطاکار سے بہتر اور توبہ کے ذریعہ گناہ سے بالکل صاف پاک ہونے والا بتایا گیا ہے، اللہ نے انبیاء کو معصوم رکھا ہے، باقی ہر بشر کے بارے میں یہ طے ہے کہ وہ اپنے فطری اور نفسانی تقاضوں کے پیش نظر گناہ کرتا ہے؛ اس لئے اللہ تعالیٰ گنہ گاروں کو رحمت الٰہی سے مایوسی اور ناامیدی سے روکتا بھی ہے، اور توبہ کو مطلوبِ ایمانی اور اعلیٰ ترین انسانی وصف بھی قرار دیتا ہے۔ چناں چہ قرآن میں کام یاب اہل ایمان کے متعدد اوصاف ذکر کرتے وقت سب سے پہلے ’’التائبون‘‘ (توبہ کرنے والوں ) کا ذکر آیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التوبۃ: ۱۱۲) حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے: یَا عِبَادِیْ اِنَّکُمْ تُخْطِئُوْنَ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَاَنَا اَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعاً، فَاسْتَغْفِرُوْنِیْ اَغْفِرْ لَکُمْ۔ (کتاب التوابین: ابن قدامہ مقدسی ۲۵۹، بحوالہ مسلم شریف) ترجمہ: اے میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو، میں تمام گناہوں کو معاف کرتا ہوں ، تم مجھ سے معافی طلب کرو، میں تمہیں معاف کروں گا۔عزم راسخ اور توبہ عریانیت اور فحاشی وبے پردگی کے اس ماحول میں ہمارے بے شمار جوان اپنی جوانیاں داغ دار کرتے جارہے ہیں ، اور بے راہ روی کے اس نشے میں اس قدر بدمست ہیں کہ نکلنا چاہتے بھی ہیں تو نکل نہیں پارہے ہیں ۔ ایسے افراد کو شریعت باہمت ہوکر توبہ وتقویٰ کی راہ پر آنے کی تلقین کرتی ہے، جب تک وہ ضبط نفس اور پختہ عزم وحوصلے کے ساتھ گناہ کی