اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ذکر کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہی تھی کہ اگر خدا کا خوف اور حیا مانع نہ ہوتے تو میں بدکاری میں مبتلا ہوجاتی۔ صبح کو حضرت عمر صنے تحقیق کی، تومعلوم ہوا کہ اس کا شوہر سفر جہاد میں ہے، آپ نے اسے بلوایا، پھر اپنی صاحب زادی ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ بیٹی: عورت شوہر سے کتنے دن صبر کرسکتی ہے، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نے تعجب سے فرمایا کہ: آپ مجھ سے یہ بات پوچھ رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اگر مسلمانوں کی خیرخواہی کا جذبہ نہ ہوتا تو نہ پوچھتا، انہوں نے کہا: پانچ یا چھ ماہ، اس وقت سے حضرت عمر صنے ۶؍ماہ کی مدت متعین کردی۔ مجاہدین کو بہرصورت ۶؍ماہ میں وطن بال بچوں میں لوٹنے کا حکم فرمادیا، یہ طے کردیا کہ مجاہدین چار ماہ مورچوں پر رہیں گے، ایک ماہ جانے کا سفر اور ایک ماہ واپسی کا سفر، کل چھ ماہ میں واپسی لازم ہوگی۔ (الفقہ الاسلامی للزحیلی ۷؍۳۳۰) حضراتِ احناف کا مسلک یہ ہے کہ نکاح کے بعد مرد کی ایک بار بیوی سے ملاقات واجب ہے، اور اس کے بعد کی ملاقاتیں دیانۃً واجب ہیں ، قضائً واجب نہیں ہیں ، یعنی اگر مرد جنسی حق کی ادائیگی میں کوتاہ ہے تو عند اللہ مجرم قرار پائے گا، گودنیا کے قانون میں اسے مجرم نہ جانا جائے۔ (فتح القدیر: کتاب النکاح: باب القسم ۳؍۳۰۲) امام ابن تیمیہؒ نے اس باب میں کوئی محدود مدت متعین کرنے کے بجائے اسے زوجین کے مزاج، حالات اور عرف پر چھوڑدیا ہے۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ۳۷؍۸۵) حاصل یہ ہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی سے جنسی تعلق قائم کرنا ہے، اور اس باب میں اسے ہر کوتاہی سے گریز کرنا چاہئے؛ اس لئے کہ نکاح اسی وقت ضامن عفت ہوسکتا ہے جب یہ حق ادا کیا جاتا رہے۔تادیب وتنبیہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بیویاں نشوز (اعراض، بات نہ ماننا) کی روش اختیار