اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
نکاح اور سرپرستوں کی ذمہ داری شریعت لڑکیوں کے نکاح میں اس کے اولیاء اور سرپرستوں کو ذمہ دار قرار دیتی ہے، اور انہیں یہ تاکید کرتی ہے کہ وہ اپنے طرز عمل سے نکاح میں رکاوٹ ڈالنے والے نہ بنیں ؛ بلکہ نکاح کو آسان کریں اور لڑکی کی تمام مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے لئے مناسب رشتہ تلاش کریں اور اس کی منظوری کے بعد نکاح کرادیں ۔ اس سلسلہ میں احادیث میں ایک واقعہ منقول ہے کہ حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب بیوہ ہوئیں اور ان کے پہلے خاوند حضرت خنیس بن حذافہ سہمی صکا انتقال ہوگیا تو حضرت عمر صکو صاحب زادی کی دوسری شادی کی فکر ہوئی، انہوں نے اپنی ذمہ داری محسوس کی اور پہلے حضرت عثمان صکے پاس گئے اور پیغام دیا، حضرت عثمان صنے غور وفکر کی مہلت لے لی، چند دنوں کے بعد ملاقات ہوئی تو حضرت عثمان صنے خوش اسلوبی سے معذرت کرلی، حضرت عمر ص اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق صکے پاس گئے، پیغام دیا، مگر حضرت ابوبکر صخاموش رہے، کوئی جواب نہ دیا، حضرت عمر صکا بیان ہے کہ مجھے حضرت عثمان صسے زیادہ غصہ حضرت ابوبکر صپر آیا، عثمان نے تو معذرت کرلی تھی، مگر انہوں نے چپ سادھ لی، (واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صکو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارادہ معلوم تھا، اس لئے خاموش رہے) پھر چند دنوں بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیغام دیا، نکاح ہوا، اور حضرت حفصہ ام المؤمنین بن گئیں ۔ (بخاری: کتاب النکاح: باب عرض الانسان ابنتہ الخ) فقہی تفصیل کے مطابق اکثر فقہاء کے بقول ولی اور سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح درست ہی نہیں ہوتا، جب کہ امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ ہے کہ آزاد اور بالغ وعاقل