اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
طرح جڑ پکڑچکی ہے کہ زمانۂ جاہلیت کی بے حجابی اس کے آگے گرد ہوگئی ہے۔موجودہ تبرج زمانۂ جاہلیت میں تبرج کی جو شکلیں رائج تھیں ، ان میں مفسرین نے عورتوں کا بے پردہ اور ناز وادا سے چلنا اور دوپٹہ قاعدے سے نہ رکھنا ذکر کیا ہے، مگر موجودہ دور میں بے حجابی اور بے حیائی کی جو نت نئی شکلیں اور طریقے منظر عام پر آرہے ہیں اور جن کا اوسط مرور ایام سے بڑھتا ہی جارہا ہے، ان کا شاید اس دور میں تصور بھی نہ تھا، اخلاق باختگی اور حیا سوزی کے جو لباسی وتصویری مناظر اس وقت ہیں ، ان کی زمانۂ قدیم میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: ’’ہم جس زمانہ میں زندگی بسر کررہے ہیں ، بلاشبہ وہ انتہائی غلیظ، اندھی، حیوانی، شہوانی اور گھٹیا جاہلیت میں غوطہ زن ہے، جس میں تمام انسانی قدریں اور شریفانہ اوصاف پادر ہوا بن چکے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو معاشرہ ایسی زندگی گذارتا ہے وہ ہر نوع کی برکتوں اور رحمتوں سے تہی دامن رہتا ہے، معاشرے کی پاکیزگی کی ضمانت انہیں امور کو اختیار کرنے میں ہے جن کی تعلیم کتاب وسنت میں ملتی ہے‘‘۔ (فی ظلال القرآن ۵؍۲۸۶۱) مسلم معاشرے کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بلامبالغہ ۸۰؍فیصد خواتین بے حجابی اور تبرج کی لعنت میں مبتلا ہیں ، اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسے گناہ اور بے حیائی سمجھا ہی نہیں جاتا، پھر جو عورتیں نقاب میں رہتی ہیں ، ان میں ۹۰؍فیصد عورتوں کا نقاب حجاب کا مقصد کم اور نمائش کا مقصد زیادہ پورا کرتا ہے۔تبرج کی ممانعت قرآن میں ازواج مطہرات کو بلاواسطہ اور تمام خواتین کو بالواسطہ حکم دیا جارہا ہے: وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلیٰ۔ (الاحزاب: ۳۳) ترجمہ: زمانۂ جاہلیت کی طرح تبرج وبے حجابی مت کرو۔