اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
شریعت نے پورے پردے کی تاکید فرمائی ہے۔پردہ احادیث نبویہ کے آئینہ میں آیاتِ قرآنیہ کی صراحتوں کے علاوہ حضور اکرم اکی صریح اور صحیح احادیث سے پردے کے وجوب کا حکم ثابت ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا، وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا مُحْرِمَاتٍ، فَاِذَا حَاذَوْا بِنَا أَسْدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَہَا مِنْ رَأْسِہَا عَلیٰ وَجْہِہَا، فَإِذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہُ۔ (مسند احمد: ۱۱؍۲۱۵) ترجمہ: سوار ہمارے پاس سے گذرتے تھے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حالت احرام میں ہوتی تھیں ، جب وہ لوگ ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنی چادریں اپنے سروں کی طرف سے اپنے چہروں پر ڈال لیتی تھیں ، اور جب وہ گذر جاتے تو منہ کھول لیتی تھیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حالت احرام میں گنجائش کے باوجود پردے کا اس قدر اہتمام ضروری ہے تو دیگر حالتوں میں یہ اہتمام کس قدر ضروری ہوگا؟ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام حضرت نبہان کا بیان ہے کہ: ’’ام سلمہ نے مجھے مکاتب بنایا (آزادی کے لئے رقم متعین کردی) پھر مجھ سے دریافت کیا کہ متعینہ رقم میں کتنا باقی رہ گیا؟ میں نے بتایا تو حکم دیا کہ میں وہ رقم ان کے بھائی یا بھتیجے کو ادا کردوں ، پھر مجھ سے پردہ شروع کردیا، مجھے اس پر رونا آگیا، میں نے کہا کہ میں رقم ادا نہ کروں گا اور آپ کا غلام رہوں گا، آپ پردہ نہ کریں ، مگر انہوں نے مجھے قسم دی، اور کہا کہ: بیٹے! تم رقم ادا کرو، آزاد ہوجاؤ، اور اب تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکوگے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: اِذَا کَانَ لِاِحْدَاکُنَّ مُکَاتَبٌ، فَکَانَ عِنْدَہٗ مَا یُؤَدِّیْ، فَلِتَحْتَجِبْ مِنْہُ۔ اگر تم میں سے کسی خاتون کے پاس مکاتب غلام ہو، اور اس کے پاس اتنی رقم ادا کرنے کا انتظام ہو جس سے وہ آزاد ہوسکے، تو عورتیں اس سے پردہ کریں ‘‘۔ (مسند احمد ۶؍۲۸۹)