اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
جب ازواج مطہرات کو (جوکہ عفت ودیانت اور حجاب وستر کی پابندی میں شاہ کار تھیں ) یہ حکم ہے تو دیگر خواتین کی طرف یہ خطاب اور حکم کہیں زیادہ اہتمام والتزام کے ساتھ متوجہ ہوگا اور ان کے لئے اس حکم کی پابندی کہیں زیادہ لازمی قرار پائے گی۔ قرآن میں یہ بھی صراحت کردی گئی ہے کہ تبرج سے ممانعت کا حکم بے مقصد نہیں ہے؛ بلکہ اس کا مقصد {لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ} تمام گندگیوں اور غلاظتوں سے سماج کو پاک صاف کرنا ہے۔ قرآن میں سورۃ النور میں پردے کے بیان کے ضمن میں واضح فرمایا گیا ہے کہ بوڑھی عورتیں جو اس عمر کو پہنچ چکی ہوں کہ نہ وہ محل رغبت ہوں ، اور نہ ان کی بے پردگی سے فتنے کا احتمال ہو، اسی طرح ان کو دیکھ کر مردوں میں صنفی جذبہ پیدا نہ ہوتا ہو، اور ان کی اپنی خواہشات بھی مٹ چکی ہوں ، ان کو نامحرم کے روبرو اس ہیئت سے آنے کی اجازت ہے کہ ان کے جسم پر چادر وغیرہ لپٹی ہوئی نہ ہو، یہ شریعت کی طرف سے بوڑھی عورتوں کے لئے سہولت ہے کہ ان کے حق میں اجنبی مرد محارم کی طرح ہوجاتے ہیں ، اور جن اعضاء کا چھپانا محارم سے ضروری نہیں ان کا چھپانا ایسی بوڑھیوں کے لئے غیر محرموں سے بھی ضروری نہیں ہے، مگر اس کے ساتھ قرآن نے {غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِیْنَۃٍ} (بشرطیکہ یہ بوڑھی عورتیں زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں ) کی قید لگادی ہے، اور واضح کردیا ہے کہ تبرج (مردوں کے سامنے اپنے حسن وآرائش کا اظہار) بوڑھی عورتوں کے لئے بھی حرام ہے۔ مذکورہ سہولت واجازت صرف انہیں بوڑھی عورتوں کے لئے ہے، جن میں بننے ٹھننے کا شوق باقی نہ رہا ہو، اور اگر یہ شوق باقی ہے تو شریعت یہ اجازت نہیں دیتی، جب بوڑھی عورتوں کو تبرج سے اس سختی سے روکا جارہا ہے تو جوان عورتوں کو تبرج سے بچنا اور جسم کے اخفاء کے باب میں کس قدر اہتمام کرنا ضروری ہے؟ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔تبرج کی ممانعت حدیث میں (۱) حضرت فضالہ بن عبید ص رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ تین افراد اللہ کی رحمت سے محروم ہوتے ہیں ، اور قیامت میں ان کا کیا حالِ بد ہوگا یہ مت پوچھو، ان میں