اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
اِلْزَمْ یَدَیْکَ بِحَبْلِ اللّٰہِ مُعْتَصِماً فَاِنَّہُ الرُّکْنُ اِنْ خَانَتْکَ اَرْکَانٗ ترجمہ: اپنے ہاتھوں کو اللہ کی رسی (قرآن) سے باندھے رکھو، اس کو مضبوطی سے تھامے رکھو، جہاں سب سہارے ٹوٹ جاتے ہیں وہاں قرآن سہارا ثابت ہوتا ہے اور قدم راہِ تقویٰ پر جمائے رکھتا ہے۔ایمان کامل انسان کے اندر کا ایمان اس کے لئے گناہ سے رکنے اور بطور خاص عفت کی حفاظت کا قوی ترین سبب اور تدبیر ثابت ہوتا ہے، اسلامی شریعت اہل ایمان کے دلوں میں خوفِ خدا کو مستحکم کرتی ہے اور برائیوں سے رکنے اور نیکیوں کی انجام دہی کے فریضہ کی طرف متوجہ کرتی ہے، اللہ کے حاضر وناظر ہونے اور کائنات کی ہر چیز سے باخبر ہونے کا احساس دل میں بیدار کرتی ہے، پھر یہی احساس تقاضائے گناہ کے باوجود گناہ کرنے سے مانع بن جاتا ہے۔ صحابیٔ رسول حضرت مرثد بن ابی مرثد ص کو مکۃ المکرمہ میں ’’عناق‘‘ نامی خاتون نے مجبور زنا کیا تو انہوں نے صاف منع کردیا اور فرمایا: حَرَّمَ اللّٰہُ الزِّنَا۔ اللہ نے زنا کو حرام قرار دیا ہے۔ (ترمذی شریف) روایات میں آتا ہے کہ حضرت مرثد ص کو قبول اسلام سے پہلے سے اس خاتون سے محبتِ خاطر تھی، اور وہ اس سے نکاح کے خواہاں بھی تھے، اور دوبار انہوں نے اس خاتون سے نکاح کے لئے بارگاہِ رسالت میں اجازت بھی طلب کی تھی، مگر یہ طلب منظور نہ ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت کریمہ: { وَالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُہَا اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ۔ (النور: ۳)} پڑھ کر یہ اصول بتادیا کہ زنا کار عورت کا جوڑ زناکار مرد یا مشرک مرد ہے، صاحب ایمان کو اس سے نکاح نہ کرنا چاہئے، اس خاتون سے قلبی محبت اور اس کی طرف سے اصرارِ گناہ کے باوجود حضرت مرثد ص زنا کے گناہ میں مبتلا نہ ہوئے، یہ دل کے ایمان کا اثر تھا۔ ایمان کی کرشمہ فرمائی ہے کہ بدکاری اور فواحش میں غرق سماج ایمان قبول کرتے ہی