اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: ’’نکاح میں متعدد شرطیں شریعت نے رکھی ہیں ، بعض شرطیں زنا اور شبہۂ زنا کو ختم کرنے کے لئے ہیں ، مثلاً اعلان نکاح کی شرط اسی لئے ہے، اعلان نہ کرنے میں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ کہیں یہ نکاح نام کا ہو اور یہ زنا کا ذریعہ ثابت ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو عورت خود چپکے سے اپنا نکاح کرے وہ بدکار ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ گواہ، اعلان، ولیمہ وغیرہ کے بغیر خفیہ نکاح کرنے والے دراصل شہوت رانی چاہتے ہیں ، نہ کہ نکاح شرعی، اسلام زنا کی مشابہت کے ادنی سے ادنیٰ سوراخ کو بند کرنا چاہتا ہے، اس لئے اعلان کو ضروری قرار دیا گیا ہے‘‘۔ (اغاثۃ اللہفان ۱؍۳۶۵-۳۶۶)گواہ اعلان نکاح کے باب میں سب سے بنیادی چیز عقد نکاح کے وقت گواہوں کی موجودگی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی ہیں : لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِیٍّ، وَشَاہِدَیْ عَدْلٍ، وَمَا کَانَ مِنْ نِکَاحٍ عَلیٰ غَیْرِ ذٰلِکَ فَہُوَ بَاطِلٌ، فَاِنْ تَشَاجَرُوْا فَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لاَ وَلِیَّ لَہٗ۔ (الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان ۹؍۳۸۶) ترجمہ: ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، جو نکاح گواہوں کے بغیر ہو وہ باطل ہے، اگر سرپرست باہم جھگڑیں تو بادشاہ سرپرست ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس صکا فرمان ہے: اَلْبَغَایَا اَللاَّ تِیْ یَنْکِحْنَ اَنْفُسَہُنَّ بِغَیْرِ بَیِّنَۃٍ۔ (ترمذی: کتاب النکاح: باب ما جاء لا نکاح الا ببینۃ) ترجمہ: جو عورتیں بغیر گواہوں کے خود اپنا نکاح کرلیں ، وہ بدکار ہیں ۔