اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
دوسری حدیث ہے: فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَرَامِ وَالْحَلاَلِ اَلدُّفُّ وَالصَّوْتُ۔ (ایضاً) ترجمہ: حلال وحرام کے درمیان فاصل دف اور آواز ہے۔ واضح کردیا گیا ہے کہ جائز نکاح وہی ہے جو علانیہ کیا جائے، جب کہ چوری چھپے کئے جانے والے عقد جاہلی ہیں اور حرام ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بقول دف کی اجازت میں مصلحت یہ ہے کہ اس سے نکاح اور زنا میں امتیاز ہوجاتا ہے، قضائے شہوت کے اعتبار سے نکاح اور زنا یکساں نظر آتے ہیں ، اس لئے یہ ضروری تھا کہ کوئی ایسی چیز طے کی جائے جس سے اول وہلہ میں نکاح وزنا کا فرق آشکارا ہوجائے، دف سے یہ مصلحت حاصل ہوجاتی ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ مع رحمۃ اللہ الواسعۃ ۵؍۶۵) ملحوظ رہے کہ دف موسیقی کے آلات میں سے نہیں ہے؛ اس لئے موسیقی کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا، شرعی مسئلہ ہے کہ جو آلات اصلاً اعلان کے لئے ہوں اور ان کا مقصد لہو وطرب نہ ہو ان کا استعمال اجماعی طور پر جائز ہے، اگرچہ کسی کو ان میں لذت محسوس ہونے لگے۔ دف، نقارے اور گھنٹیاں اسی میں شامل ہیں ، جب کہ وہ آلات جو لہو ولعب کے لئے ہوں ان کا استعمال درست نہیں ہے، اسی طرح ایسے عشقیہ اشعار جو مخرب اخلاق ہوں اور شہوت انگیز ہوں ، وہ بھی ممنوع ہیں ، جن اشعار میں ایسے فاسد مضامین نہ ہوں ان کا گانا آلات موسیقی کے بغیر حدود شرعیہ کی پاس داری کے ساتھ جائز ہے۔مسجد میں نکاح اسی طرح مساجد میں نکاح کی ترغیب دی گئی ہے، اور اس کا مقصد بھی اعلان وتشہیر ہے؛ بلکہ یہ تشہیر کی بہترین صورت ہے۔ولی کی موجودگی شریعت نے نکاح میں ولی اور سرپرست کو بنیادی اہمیت دی ہے، لڑکیوں کی شادی