اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
عورتوں کی مردوں سے لوچ اور نزاکت کے ساتھ ہم کلامی قرآنِ کریم میں ازواج الرسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بلاواسطہ اور تمام خواتین اسلام کو بالواسطہ خطاب ہے: اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَعْرُوْفاً۔ (الاحزاب: ۳۲) ترجمہ: اگر تمہارے دل میں خدا کا خوف ہے تو تم لہجہ میں نرمی اختیار نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے وہ کسی طمع خام میں مبتلا ہوجائے؛ بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔ معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت کسی مرد سے بات حرام وممنوع نہیں ہے؛ بلکہ ایسے موقعوں پر خواتین کا لہجہ اور انداز گفتگو مردوں کے لئے حوصلہ افزا اور امید افزا نہیں ہونا چاہئے،لہجہ لوچ سے پاک ہونا چاہئے، باتیں لگاوٹ سے خالی ہونی چاہئیں اور آواز میں شیرینی نہیں ہونی چاہئے، مردوں کے جذبات برانگیختہ کرنے اور آگے کے مرحلے کے لئے قدم بڑھانے کا کوئی موقع نہ آنے دینا چاہئے، اجنبی مردوں سے لوچ دار گفتگو اور باعثِ کشش لہجہ وانداز بدکاری کی راہ پر چلانے والا اہم ترین ذریعہ ہے، اور قرآن نے اسے فاسقات وفاجرات کا طرزِ عمل بتایا ہے نہ کہ مؤمنات صالحات کا۔ امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں : ’’آیت میں ازواج مطہرات کو براہِ راست اور عام خواتین کو بالواسطہ مخاطب بنایا گیا ہے، اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ مردوں کے ساتھ گفتگو کے مواقع پر لہجہ میں لوچ اور نزاکت کے بجائے خشونت ہونی چاہئے؛ تاکہ شہوت پرست دلوں میں لالچ اور طمع نہ آئے، اور ایسے لوگوں کے جذبات برانگیختہ نہ ہوں ، فاسقات وفاجرات کا انداز گفتگو لوچ دار اور شہوت پرستوں کے لئے حوصلہ افزا ہوتا ہے، جب کہ صالح عورتوں کا انداز بے لوچ اور کھردرا ہوتا