اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
معلوم ہوا کہ لڑکی کے والدین کو حد اعتدال اور دائرۂ قوت سے بڑھ کر مہر کا مطالبہ نہ کرنا چاہئے؛ تاکہ نکاح کا عمل بآسانی ہوسکے اور اس کی برکات طرفین کو اپنے حصار میں لے سکیں ۔مہر بڑھانے کا فیشن اور نبوی کردار بہت سے لوگ زیادہ سے زیادہ مہر رکھنے کو اپنے لئے باعث اعزاز وفخر اور اپنی شان اور آن کی بات سمجھتے ہیں ، موجودہ حالات میں محض دکھاوے اور شہرت وناموری کے لئے فیشن کے طور پر مہر زیادہ رکھنا رائج ہوگیا ہے، ایسے افراد کے لئے سید المرسلین اور کائنات کی سب سے محترم ہستی اور ’’بعد از خدا بزرگ توئی ایں قصہ مختصر‘‘ کی مصداق شخصیت سیدنا محمد عربی فداہ ابی وامی وروحی، صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ حضرت عمر ص کا بیان ہے: اَلاَ لاَ تُغَالُوْا فِیْ مُہُوْرِ النِّسَائِ، فَاِنَّہَا لَوْ کَانَتْ مَکْرُمَۃً فِیْ الدُّنْیَا وَتَقْویً عِنْدَ اللّٰہِ، لَکَانَ اَوْلاَکُمْ بِہَا نَبِیُّ اللّٰہِ ا، مَا عَلِمْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا نَکَحَ شَیْئاً مِنْ نِسَائِہٖ، وَلَا أَنْکَحَ شَیْئاً مِنْ بَنَاتِہٖ عَلیٰ اَکْثَرَ مِنْ اثْنَتَیْ عَشَرَۃَ اُوْقِیَۃً۔ (مشکاۃ المصابیح: کتاب النکاح: باب الصداق ۲۷۷) ترجمہ: سنو! مہر زیادہ مت رکھو، اگر یہ زیادتی دنیا میں باعث عزت اور بارگاہِ الٰہی میں تقویٰ کی علامت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تم سے زیادہ اس کے مستحق تھے، مجھے نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی خاتون سے اپنا نکاح، یا اپنی صاحب زادیوں میں سے کسی کا نکاح بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر پر کیا ہو۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ زیادہ مہر طے کرنے والے صرف اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے ایسا کرتے ہیں ، اور شروع سے ہی ان کی نیت مہر ادا نہ کرنے کی ہوتی ہے، پھر پوری زندگی بغیر مہر ادا کئے گذر جاتی ہے، عورت سے یا تو بزور وجبر معاف کرایا جاتا ہے یا سرے سے مہر کا ذکر ہی نہیں آتا، عورت کبھی طلب کرلے تو اس کی شامت آجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے