اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
تحفظِ عفت کی اہمیت واقعۂ افک کے تناظر میں انسانی عفت وعصمت کی مثال انتہائی نازک آبگینے کی سی ہے، جو ذراسی بے احتیاطی، اور بسا اوقات دوست نما دشمنوں کی ہوا خیزی سے چور چور ہونے لگتا ہے، ذراسی ٹھیس بھی اس آبگینے کو ریزہ ریزہ کرڈالتی ہے، اور جب تک اس کی چوطرفہ حفاظت، حصار بندی اور فکر نہیں کی جاتی ہے، اس کا تحفظ اور تقدس باقی نہیں رہتا۔ اسلام انسانی سماج کو طیب اور پاکیزہ سماج بنانا چاہتا ہے، مگر نظام فطرت یہ ہے کہ معاشرہ کتناہی پاکیزہ اور اچھا ہوجائے، برائیاں جڑ سے معدوم نہیں ہوتیں ، وہ دبی رہتی ہیں ، اور ذراسی تحریک اس دبی ہوئی چنگاری کو آن ہی آن میں شعلہ بناڈالتی ہے، اللہ کی سنت کے مطابق کوئی سماج خبیث افراد سے خالی نہیں رہتا، جوہر موقعے سے فائدہ اٹھانے اور برائیوں اور بالخصوص بدگمانیوں کو پھیلانے اور ہوا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، پھر ان کے اثرات سے بسااوقات سلیم الطبع اور شریف النفس افراد بھی متأثر ہوجاتے ہیں ، اسی لئے شریعت نے ہر ایک کو اور بطور خاص عورتوں کو جابجا بے حد احتیاط کے ساتھ تحفظ عفت وعصمت کی تاکید وتلقین فرمائی ہے۔ قرآنِ کریم میں سورۃ النور کے دوسرے اور تیسرے رکوع میں اتہام والزام وافتراء کے اس طوفان کا ذکر کیا گیا ہے جو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خلاف مدینۃ المنورہ کے پاکیزہ سماج میں پنپ رہے خبیث الفطرت منافقین نے برپا کرکے ناموسِ رسالت کو مطعون اور داغ دار کرنے کی مذموم ومسموم کوشش کی تھی۔