اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
خادم کو کسی قریبی مقام پر جانے کا، اور دونوں خادم حکم کی تعمیل نہ کریں تو دونوں کا جرم یکساں ہوگا، مقام کے بعد وقرب سے کوئی تفاوت نہ رہے گا۔ دوسو درہم کا مالک زکاۃ نہ ادا کرے اور دو لاکھ درہم کا مالک زکاۃ ادا نہ کرے، جرم یکساں ہے، مال کی قلت وکثرت سے کوئی تفاوت نہیں ہوتا۔ اسی طرح گناہ کرنے والا اللہ کا نافرمان ہے، چھوٹا گناہ ہو یا بڑا، سب سے بچنا ضروری ہے‘‘۔ (الجواب الکافی ۱۹۰) مزید لکھتے ہیں : ’’بدکاری کا خیال نہ آنے دو، ورنہ یہ خیال فکر بن جائے گا، اگر خیال آجائے تو اسے فکر نہ بننے دو، ورنہ یہ فکر شہوت بن جائے گی، اگر فکر بن جائے تو اسے شہوت نہ بننے دو، ورنہ وہ پختہ ارادے میں تبدیل ہوجائے گی، اگر شہوت وخواہش پیدا ہی ہوجائے تو اسے پختہ ارادہ نہ بننے دو، ورنہ اس کا سلسلہ عمل تک پہنچ کر رہے گا، پھر ایک بار شہوت کے تقاضے پر عمل ہوجائے اور اس کا تدارک نہ کیا جائے تو عادت بن جاتی ہے اور اس سے پیچھا چھڑانا بے حد دشوار ہوجاتاہے۔ (لہیب الشہوات ۲۶، بحوالہ ابن القیم) واضح ہوا کہ صغائر سے اجتناب کا اہتمام انسان کی عفت وعصمت کی حفاظت کی مؤثر تدبیر ہے۔مہلک ومتعدی امراض کا خوف عفت وعصمت کے تحفظ کی تدبیروں میں یہ بھی ہے کہ حرام شہوت رانی اور بدکاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے انتہا مہلک اور لاعلاج بیماریوں اور ان کے انجام بد کا استحضار کرلیا جائے، اور ان کا خوف دل میں اس طرح پیدا ہوجائے کہ نفس کے سرکش تقاضوں کے باوجود عقل بدکاری کی راہ پر چلنے سے روک دے۔ آج جنسی بے راہ روی کے نتیجے میں ایڈز اور اس جیسے متعدد مہلک امراض کا جو سیلاب آیا ہوا ہے وہ درحقیقت خدا کا قہر وعذاب ہے، جو سماج کی انتہائی آخری حد تک پہنچ چکی بدکاری کی لعنت کا وبال ہے۔ حضور اکرم انے صحابہ ث کو خطاب کرکے فرمایا تھا: