اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
گراں اور بے انتہاء قربانیوں کی طالب ہونے کی وجہ سے ہجرتِ مدینہ کے مساوی قرار دیا گیا ہے، اسی طرح شہوت پرستانہ اور فتنہ آلود ماحول وفضا میں عمل صالح کو انتہائی اعلیٰ اور مقبولِ بارگاہِ الٰہی بتایا گیا ہے۔قوتِ ارادی عفت مآبی کا لازمی اثر قوتِ ارادی کی دولت ہے، دل میں موجود تقوے کی قوت، نفس کے شہوانی تقاضوں اور قوتوں کو اسی وقت مغلوب کرسکتی ہے جب قوتِ ارادی اور عزم صادق وراسخ کی دولت موجود ہو۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے: وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ۔ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْویٰ۔ (النازعات: ۴۰-۴۱) ترجمہ: جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا، اور نفس کو خواہشات سے روکا، جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہے۔ معلوم ہوا کہ نفس کو ہویٰ (خواہشات) سے روکنا اور ہدی (شریعت) کے تابع کرنا مضبوط ارادے، عزم، ہمت اور حوصلے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وَمَنْ أَرَادَ الاٰخِرَۃَ وَسَعیٰ لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَشْکُوْراً۔ (الاسراء: ۱۹) ترجمہ: جو آخرت کا خواہش مند ہو، اور اس کے لئے شایانِ شان سعی کرے، اور وہ مؤمن ہو، تو ایسے ہر شخص کی سعی قبول ہوگی۔ واضح کردیا گیا کہ سعی وارادے ہی پر تمام برائیوں سے بچاؤ اور تمام نیکیوں کی انجام دہی کا دارومدار ہے۔پورے معاشرے کی سلامتی اور حفاظت عفت مآبی کے نتیجے میں پورا سماج خدائی سزاؤں ، ناگہانی آفات وبلیات، مہلک