اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
سجاح نے بھاگ کر جان بچائی اور جزیرہ میں جاکر مقیم ہوگئی، نبوت کے دعوے سے توبہ کی اور اسلام قبول کرلیا۔ قبیلہ بنی تغلب سے اس کا نانہالی رشتہ تھا، اس میں جاکر خاموشی کی زندگی گزارنے لگی، اس کے کہنے پر اس کی قوم نے اسلام قبول کرلیا تو وہ بصرہ منتقل ہوگئی اور نیکو کاری اور پرہیزگاری کو اپنا شعار بنالیا۔ سیدنا امیر معاویہ ص کے زمانہ میں اس کی وفات ہوئی۔ (حیا اور پاک دامنی ۱۷۷-۱۸۱ از:پیر ذوالفقار نقشبندی) ان واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مرد وعورت کی خلوت کیا گل کھلاتی ہے اور عفت وعصمت کی ردا کس طرح اس سے تارتار ہوجاتی ہے؛ اسی لئے شریعت نے اس پر قدغن لگائی ہے۔ حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کا ارشاد ہے کہ: لَوْ اُئْتُمِنْتُ عَلیٰ بَیْتِ مَالٍ لَکُنْتُ اَمِیْناً، وِلَا اٰمَنُ مِنْ نَفْسِیْ عَلیَ اَمَۃٍ شَوْہَائَ۔ ترجمہ: اگر مجھے بیت المال کا امین بنادیا جائے تو میں اسے قبول کرسکتا ہوں ؛ لیکن ایک بدصورت باندی کی ذمہ داری میں نہیں لے سکتا، اس میں عفت کا تحفظ مشکل ہے۔باشعور بچوں اور بچیوں کا ایک بستر پر سونا باشعور بچوں اور بچیوں کا ـ-خواہ وہ سگے بھائی بہن ہوں - ایک بستر پر سونا بدکاری اور بدچلنی کا محرک اور صنفی ہیجان کا باعث ہوتا ہے۔ رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا صریح ارشاد ہے: مُرُوْا اَوْلاَدَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَہُمْ اَبْنَائُ سَبْعٍ، وَاضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ اَبْنَائُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَہُمْ فِیْ الْمَضَاجِعِ۔ (ابوداؤد شریف ۱؍۱۱۵) ترجمہ: اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو، دس سال ہونے پر نہ پڑھیں تو مارو اور سزا دو، اور ان کے بستر اور خواب گاہیں الگ الگ کردو۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگہ داشت کریں اور کوئی ایسا موقع نہ دیں