اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
اسلام کے بدباطن دشمن، حضور اکرم اکے حرم کو نشانہ بنانا چاہ رہے تھے، اور بقول نعیم صدیقی: ’’اسلامی تحریک کے قائد اعلیٰ کے حرم کو نشانہ بنایا گیا جو ساری امت اور ساری انسانیت کے لئے معاشرتی واخلاقی لحاظ سے مرکزی نمونہ ٹھہرایا گیا تھا، اسی حرم کے گرد نئی اسلامی معاشرت کا چھتہ تیار ہورہا تھا، اور اس چھتے کو برباد کرنے کے لئے کارگر ترین وار وہی ہوسکتا تھا جو اس کے مرکز پر کیا جائے، منفی تخریبی طاقت نے یہ آخری وار بھی کرڈالا، اس مخالفانہ وار کی دردناک داستان واقعۂ افک کے عنوان سے قرآن، سیرت اور تاریخ کے دفتروں میں عبرت اندوزی کے لئے محفوظ ہے‘‘۔ (محسن انسانیت ۳۰۶) یہ واقعہ ۶ھ کا ہے، رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غزوۂ بنی المصطلق سے مدینہ واپس آرہے ہیں ،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ساتھ ہیں ، راستے میں کسی منزل پر حضرت عائشہ قضاء حاجت کے لئے ہودج سے باہر ویرانے کی طرف جاتی ہیں ، واپس آتی ہیں تو قافلہ جاچکا ہوتا ہے، چوں کہ آپ ہلکے بدن کی ہیں ، اور ہودج پر پردہ پڑا ہوا ہے، اس لئے کسی کو یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ آپ ہودج میں نہیں ہیں ، حضرت عائشہ پریشان ہوکر چادر لپیٹ کر اسی مقام پر لیٹ جاتی ہیں ؛ تاکہ تلاش کرنے والے کو آنے پر دقت نہ ہو۔ حضرت صفوان صجو قافلے سے پیچھے چلنے پر اور بھولے بھٹکے لوگوں کی خبر گیری پر مامور ہیں ، آتے ہیں ، قریب پہنچ کر ام المؤمنین کو پاتے ہیں اور حیرت واستعجاب سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہیں ، اپنا اونٹ بٹھادیتے ہیں ، ام المؤمنین سوار ہوجاتی ہیں ، حضرت صفوان پیدل اونٹ کی نکیل تھامے چلتے ہیں ، بالآخر قافلے سے آملتے ہیں ، بس کینہ پرور منافقوں کو موقع مل جاتا ہے اور وہ اسے افسانہ بناڈالتے ہیں ، اور مدینے کی پرسکون فضا میں ناموسِ رسول ا کے خلاف افتراء والزام کا طوفان کھڑا کردیتے ہیں ، چند مسلمان بھی ان کے جھانسے میں آکر وہی باتیں دہراتے ہیں ، پورا مسلم معاشرہ ناقابل بیان اذیت میں