اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ومعنوی سکون کے سامانوں اور عیش وآرام کا نقشہ کھینچتی ہے، اس واقعہ کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! میں تمہارے لئے ایسا ہوں جیسے ابو زرع اپنی بیوی کے لئے تھا، اس کا مفہوم یہی ہے کہ عورتوں میں اپنے شوہر کے تئیں محبت، خدمت، احسان مندی اور سپاس گذاری کا وہی جذبہ مطلوب ہے جو ام زرع میں تھا، اور شوہروں کو بیویوں کی راحت ومسرت کا اسی طرح اہتمام کرنا چاہئے جیسا ابوزرع نے کیا تھا۔ (بخاری: کتاب النکاح: باب حسن المعاشرۃ مع الاہل) ازواجِ مطہرات اور بالخصوص حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت خوب خوب کی ہے، ذخیرۂ احادیث میں ایسے متعدد واقعات موجود ہیں ، شریعت نے شوہر کا حق عورت کے ذمے بہت عظیم بتایا ہے، اس کی عظمت کے لئے یہ حدیث بس ہے: لَوْ کَانَ مِنْ قَدَمِہٖ اِلیَ مَفْرِقِ رَأْسِہٖ قُرْحَۃٌ، تَنْبَجِسُ بِالْقَیْحِ وَالصَّدِیْدِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَتْہُ فَلَحِسَتْہُ مَا اَدَّتْ حَقَّہٗ۔ (الترغیب والترہیب ۳؍۵۵) ترجمہ: شوہر کا حق اتنا زیادہ ہے کہ اگر شوہر پورا از سرتا پا زخمی ہو، خون آلود اور لہولہان ہو، اور بیوی اس زخمی جسم کو زبان سے چاٹے، تب بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس حدیث پر غور کیجئے کہ شوہر کی خدمت کے پہلو کو کس طرح اجاگر کیا جارہا ہے، اور عورت کو کتنی مؤثر تعلیم وتلقین فرمائی جارہی ہے۔ احادیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ شوہر کا ہی سب سے زیادہ حق بیوی پر ہے۔ (ایضاً ۳؍۵۳) اور بغیر شوہر کے حقوق کی ادائیگی کے عورت کو ایمان کی حلاوت اور عبادت کی لذت حاصل نہیں ہوسکتی۔ (ایضاً ۳؍۵۶) اور جو خاتون اپنے شوہر کا حق خدمت ادا نہیں کرتی اور ایذا دیتی ہے تو جنت کی حوریں اسے بددعا دیتی ہیں ۔ (ایضاً ۳؍۵۸)شوہر کے گھر اور مال کی حفاظت بیوی کی ذمہ داریوں میں یہ بھی ہے کہ وہ اپنے حسن عمل وانتظام سے شوہر کی معتمد بن جائے، اور شوہر کے گھر اور مال وجائیداد کی مکمل حفاظت کرے، یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب