اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
کی راہوں پر علانیہ چلتا ہے اور اسے کوئی باک اور عار نہیں ہوتا، بسا اوقات اپنی بدکاری کے واقعات کو اظہار فخر کے طور پر برملا بیان کرتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے: کُلُّ اُمَّتِیْ مَعَافیً اِلاَّ الْمُجَاہِرِیْنَ۔ (الجامع الصغیر ۲؍۲۷۶) ترجمہ: سب کو معاف کردیا جائے گا مگر جو علانیہ گناہ کریں ، گناہوں کو برملا بیان کریں ان کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ روایات میں آتا ہے کہ اللہ پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے، جو بندہ اپنے گناہ کا اعلان واظہار کرتا ہے وہ بدترین مجرم ہے۔ حضور اکرم اکی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی ہے: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْرِ۔ (مسلم: کتاب الحج: باب استحباب الذکر) اس کا حاصل یہ ہے کہ خدایا! میں نیکی کے بعد برائی کا عادی بننے سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں ۔دعا کی نامقبولیت زنا کا جرم اس قدر سنگین ہے کہ وہ دعا کی مقبولیت ختم کردیتا ہے۔ حضرت عثمان بن ابی العاص صآپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ناقل ہیں : تُفْتَحُ أَبْوَابُ السَّمَائِ نِصْفَ اللَّیْلِ، فَیُنَادِیْ مُنَادٍ: ہَلْ مِنْ دَاعٍ فَیُسْتَجَابُ لَہٗ، ہَلْ مِنْ سَائِلٍ فَیُعْطیٰ؟ ہَلْ مِنْ مَکْرُوْبٍ فَیُفَرَّجُ عَنْہُ، فَلاَ یَبْقیٰ مُسْلِمٌ یَدْعُوْ بِدَعْوَۃٍ اِلاَّ اسْتَجَابَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَہٗ اِلاَّ زَانِیَۃً۔ (السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۳؍۶۲، بحوالہ معجم اوسط للطبرانی) ترجمہ: آدھی رات کے وقت آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے