اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
جو بندہ حیا کرتا ہے وہ قیامت کے روز اللہ کی سزا سے محفوظ رہے گا، اور جو گناہ سے حیا نہ کرے وہ اللہ کی سزا سے بچ نہیں سکتا‘‘۔ (الداء والدواء ۱۳۱-۱۳۳ ملخصاً) ایک جگہ مزید تحریر فرماتے ہیں : ’’ہر انسان میں دو جذبے ہوتے ہیں ، اور اس کی سرگرمیاں دونوں میں سے کسی ایک کی مرہونِ منت ہوتی ہیں ، ایک حیا ہے، دوسرا ہویٰ (خواہش نفس) ہے۔ اگر انسان حیا کے تقاضے پر عمل کرتا ہے تو وہ خیر پر قائم رہتا ہے اور اگر ہویٰ کے تقاضے پر عمل کرتا ہے تو اس سے شر ہی صادر ہوتا ہے‘‘۔ (مفتاح دارالسعادۃ ۲۷۷) واضح ہو کہ بدکاری کا بدترین نقصان بے حیائی اور بے شرمی اور حیا کے خاتمے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔سوئِ خاتمہ بسا اوقات زنا سوئِ خاتمہ کا باعث ثابت ہوتا ہے، سوء خاتمہ کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ انسان زنا اور گناہ کا ارتکاب کرتا رہے اور توبہ کرکے باز نہ آئے، توفیق توبہ سے محرومی بہت خطرناک بات ہے۔ حافظ عبد الحق اشبیلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’سوء خاتمہ کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں ،ان میں دنیا پرستی، آخرت سے بے فکری، گناہوں پر جرأت وجسارت نمایاں ہیں ، بسا اوقات انسان گناہ کا عادی ہوجاتا ہے، اور گناہ اس کے قلب وحواس پر چھاجاتا ہے، اس کی عقل پر گناہ کی ظلمت سے پردے پڑجاتے ہیں ، دل نورِ ایمان سے محروم ہوجاتا ہے، پھر اسی عالم میں اس کی موت آجاتی ہے، نہ اسے توبہ کی توفیق ملتی ہے اور نہ اصلاحِ حال کا موقعہ‘‘۔ (الجواب الکافی لابن القیم ۱۷۵) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: ’’گناہوں کے ارتکاب کا اصل سبب یہ ہے کہ انسان پر شہوتیں غالب آجاتی ہیں ، اور دل میں ان کا خیال راسخ ہوجاتا ہے، انسان زندگی میں جن چیزوں سے مانوس اور عادی