اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
سے محفوظ رہتا ہے، عفت مآب رہتا ہے، اور جب موسیقی اور گانے کے چکر میں پڑجاتا ہے تو پھر اس کی عفت مخدوش ہوجاتی ہے، اور اس کے لئے زنا سے بچنا آسان نہیں رہتا‘‘۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ۱؍۴۱۷) قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ، لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ، وَیَتَّخِذَہَا ہُزُواً، اُولٰئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُہِیْنٌ۔ (لقمان: ۶) ترجمہ: اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں ؛ تاکہ بغیر سمجھے اللہ کی راہ سے بھٹکائیں ، اور اسے ہنسی مذاق بنائیں ، ایسے لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔ اس آیت مبارکہ میں ’’لہو الحدیث‘‘ (کھیل کی باتوں ) سے مراد گانا، راگ اور اس جیسی چیزیں ہیں ، جن سے سختی سے منع فرمایا جارہا ہے۔ یورپ کی تہذیب کو عریاں اور جنسیت زدہ بنانے میں میوزک اور رقص وغناء ہی کا کلیدی کردار رہا ہے، اور اس لعنت نے نہ جانے کتنے پاکیزہ مردوں اور عورتوں کو زنا اور بدکاری کا عادی بنادیا اور نہ جانے کتنے گھروں ، محلوں اور سماجوں کے پاکیزہ کردار کو گدلا اور گندا کرڈالا۔فحاشی کی اشاعت فحاشی اور منکرات کی اشاعت بسا اوقات انسان کو بدکاری کے عملی میدان میں قدم رکھنے پر آمادہ کردیتی ہے، جب بھی فواحش کا تذکرہ کیا جائے اور اس کی پرزور تردید اور اس کے مضرات اور نقصانات کا بیان نہ کیا جائے تو یہ تذکرہ کم زور طبیعتوں کو گناہ کی طرف راغب کرتا ہے۔ قرآنِ کریم نے فحاشی کی اشاعت کو اسی لئے حرام قطعی قرار دیا ہے۔ قرآن کا بیان بالکل واضح ہے: