اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
حدیث میں سخت وعید ہے، ارشاد ہے: أَیُّمَا رَجُلٍ تَزَوَّجَ اِمْرَأَۃً عَلیٰ مَا قَلَّ مِنَ الْمَہْرِ اَوْ اَکْثَرَ، لَیْسَ فِیْ نَفْسِہٖ أَنْ یُؤَدِّیْ اِلَیْہَا حَقَّہَا، فَمَاتَ، وَلَمْ یُؤَدِّ اِلَیْہَا حَقَّہَا، لَقِیَ اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَہُوَ زَانٍ۔ (مجمع الزوائد ۴؍۲۸۴) ترجمہ: جس کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا مہر کی مقدار کم یا زیادہ پر، اس کی نیت یہ تھی کہ وہ عورت کا حق مہر ادا نہ کرے گا، پھر اسی حالت میں وہ مرگیا، اور عورت کا حق مہر اسے ادا نہ کیا، تو قیامت کے روز جب وہ اللہ سے ملے گا تو زانی قرار پائے گا۔اسلامی تعلیم کا حاصل مہر کی زیادتی خاندانی زندگی کے لئے رحمت کے بجائے زحمت ثابت ہوتی ہے؛ اس لئے شرعی حکم یہی ہے کہ مہر اتنا ہی مقرر کیا جائے جس کے ادا کرنے کی نیت ہو، اور جسے ادا کرنے پر شوہر قادر بھی ہو، پورا مہر بروقت ادا ہونا چاہئے، ورنہ ایک مدت طے ہونی چاہئے اور مدت پوری ہونے پر یک مشت یا اس دوران آسان قسطوں میں اسے ادا کرنا چاہئے، یہ بھی ملحوظ رہے کہ زیادتیٔ مہر کی رسم عام کے پہلو بہ پہلو بعض خاندانوں اور برادریوں میں مہر کی اتنی کم مقدار متعین کی جاتی ہے جو مضحکہ خیز ہوتی ہے اور اس سے عورت کی توہین ہوتی ہے، اور اسے اپنے ہم چشموں میں سبک سار ہونا پڑتا ہے۔ اسلام اس سے بھی منع کرتا ہے اور اعتدال کی تاکید کرتا ہے، شریعت کا تقاضا یہی ہے کہ مہر کی مقدار نہ تو اتنی زیادہ ہو کہ مرد ادا نہ کرسکے، اور نہ اتنی کم ہو کہ اس میں عورت کا اعزاز واکرام ناپید ہو۔ رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ اکثر ازواج اور صاحب زادیوں کے سلسلہ میں پانچ سو درہم چاندی کا رہا ہے، یہی مہر فاطمی ہے، اور اس کا وزن ۱۳۱؍تولہ ۳؍ماشہ چاندی ہوتا ہے، ہر زمانہ میں اس مقدار چاندی کی جو قیمت ہوگی وہی مہر فاطمی کی مقدار ہوگی۔