اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
دلدل سے نکل کر اللہ کے حضور تائب ونادم نہیں ہوں گے، نہ دنیا وآخرت کا فلاح حاصل کرسکیں گے اور نہ سکون وراحت کی نعمت پاسکیں گے۔قابلِ تقلید نمونے ہماری تاریخ میں ایسے گنہ گاروں کے لئے بے شمار قابل اتباع نمونے موجود ہیں ، روایات میں مشہور صحابی حضرت ماعز اسلمی ص کا واقعہ مذکور ہے، ان سے زنا کا گناہ سرزد ہوگیا تھا، ان کو اس قدر ندامت اور احساس ہوا کہ خود دربار رسالت میں حاضر ہوئے، اقرارِ جرم کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت رد وقدح کی، مگر وہ اعترافِ جرم پر مصر رہے، بالآخر سزا دی گئی، ان کی تدفین کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام مسلمانوں کو ان کے لئے دعائے مغفرت کا حکم دیا، اور فرمایا: لَقَدْ تَابَ تَوْبَۃً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ اُمَّۃٍ لَوَسِعَتْہُمْ۔ (صحیح مسلم: کتاب الحدود: باب حد الزنا) ترجمہ: انہوں نے ایسی توبہ کی ہے کہ وہ پوری ایک (گنہ گار) قوم میں تقسیم کردی جائے تو سب کے لئے کافی ہوجائے۔ اسی طرح غامدیہ نامی خاتون خدمت نبوی میں آتی ہیں ، بے حد ندامت کے ساتھ ارتکابِ زنا کا اعتراف کرتی ہیں ، وہ زنا سے حاملہ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کا معاملہ بچے کی ولادت پر ٹالتے ہیں ، ولادت کے بعد آتی ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اس کی شیر خوارگی کی مدت ختم ہوجائے، تب آنا، پھر آتی ہیں تو سزا دی جاتی ہے، سنگ سار کیا جاتا ہے۔ حضرت خالد ص بھی موجود ہیں ، وہ بھی پتھر پھینک رہے ہیں ، وہ اپنا پتھر غامدیہ کے سر پر پھینکتے ہیں ، غامدیہ کے سر سے خون ابلنے لگتا ہے، اس کی اکات چھینٹیں حضرت خالد صکے چہرے پر آتی ہیں ، وہ غصہ میں کوئی گالی یا سخت بات کہتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سنتے ہیں تو فرماتے ہیں : مَہْلاً یَا خَالِدُ: فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ تَابَہَا