اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
بیان نہیں ، اسی لئے حدیث میں وارد ہوا ہے: کُتِبَ عَلیٰ ابْنِ اٰدَمَ نَصِیْبُہٗ مِنَ الزِّنَا، مُدْرِکٌ ذٰلِکَ لاَمَحَالَۃَ، اَلْعَیْنَانِ زِنَاہُمَا النَّظَرُ، وَالْاُذُنَانِ زِنَاہُمَا الْاِسْتِمَاعُ، وَاللِّسَانُ زِنَاہُ الْکَلاَمُ، وَالْیَدُ زِنَاہَا الْبَطْشُ، وَالرِّجْلُ زِنَاہَا الْخُطیٰ، وَالْقَلْبُ یَہْوَی وَیَتَمَنیّٰ، وَیُصَدِّقُ ذٰلِکَ الْفَرْجُ وَیُکَذِّبُہٗ۔ (مشکوٰۃ المصابیح: باب الایمان بالقدر، بحوالہ مسلم) ترجمہ: فرزند آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لازم کردیا گیا ہے، جسے وہ یقینا پاکر رہے گا، آنکھوں کا زنا (بری) نگاہ سے دیکھنا ہے، کانوں کا زنا (ناجائز چیز) سننا ہے، زبان کا زنا (بری) گفتگو ہے، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے اور پیر کا زنا قدم رکھنا ہے، دل خواہش وتمنا کرتا ہے، اور شرم گاہ اس تمنا کی (تکمیل کرکے) تصدیق اور (تکمیل نہ کرکے) تکذیب کرتی ہے۔فکر وخیال کا زنا انسان کے افکار وخیالات شر اور خیر کا مبدأ اور بنیاد ہیں ، ارادے، حوصلے، ہمتیں اور عزائم انہیں سے پیدا ہوتے ہیں ، جو بندہ اپنے فکر وخیال کو پاکیزہ رکھتا ہے وہ خواہش نفس کا غلام نہیں بنتا، جب کہ فکر وخیال کی بے لگام آزادی اور آوارگی انسان کو بندۂ ہوا وہوس بنادیتی ہے، اور گناہ کی وادی میں غرق کرڈالتی ہے، دنیا وآخرت کے منافع کے حصول اورمضرات کے دفعیہ کے لئے ذہن ودماغ میں آنے والے افکار وخیالات تو درست ہوتے ہیں ؛ لیکن شہوانیت اور معصیت کے افکار وخیالات پر بند لگانے کی کوشش ہر صاحب ایمان کا فرض ایمانی ہے، ورنہ خدانخواستہ یہ افکار اگر عملی روپ دھار لیتے ہیں تو دین ودنیا کا ناقابل تلافی خسارہ ہوتا ہے۔ اللہ نے انسان کو نفس امارہ اورنفس مطمئنہ دونوں سے مرکب بنایا ہے، یہ دونوں باہم برسر پیکار رہتے ہیں ، شہوانی اور شیطانی قوتیں نفس امارہ کی معاون ہوکر گناہ کی راہ ہموار اور