اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
اور یہ شرعی ذمہ داری ہونے کے ساتھ ساتھ عقلی اور طبعی ذمہ داری بھی ہے، اور یہ فرض تمام انبیاء اور پیغمبروں کی شریعت میں رہا ہے؛ بلکہ ایمان کے بعد انسان پر عائد ہونے والا سب سے بڑا فرض ’’ستر عورت‘‘ ہی ہے، اورنماز جیسی عظیم عبادت بھی اس کے بغیر درست نہیں ہوتی، مرد وعورت دونوں اس حکم کے پابند ہیں ، جلوت وخلوت دونوں حالتوں میں اس کی پابندی لازمی ہے، فقہی تفصیل کے مطابق مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے (احناف کے نزدیک ناف ستر میں داخل نہیں ہے، جب کہ گھٹنہ ستر میں داخل ہے) باندیوں کا ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے، اور پیٹ، پیٹھ اور پہلو بھی ستر ہے۔ آزاد عورت کا ستر چہرہ، ہتھیلیوں اور پیروں کے سوا پورا جسم ہے۔ (ملاحظہ ہو: الفقہ الاسلامی وادلتہ: د/وہبۃ الزحیلی ۱؍۵۸۴)پردہ اور اس کے درجات ستر عورت کے فرض کے علاوہ شریعت میں دوسرا فرض حجاب اور پردے کا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ عورتیں اجنبی مردوں سے پردہ کریں ، یہ فرض جملہ تفصیلات کے ساتھ ۵ھ میں نازل ہوا ہے، پردے سے متعلق قرآنِ کریم کی سات آیات اور حضور اکرم اکی ستر سے زائد روایات کی روشنی میں پردے کے تین درجات واضح ہوتے ہیں ۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے معارف القرآن میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے: (۱) حجابِ اشخاص بالبیوت: پردے کا پہلا اور اصل مطلوبِ شرعی درجہ یہ ہے کہ عورتیں گھروں میں رہیں ۔ قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے: وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ۔ (الاحزاب: ۳۳) ترجمہ: تم اپنے گھروں میں رہو۔ حدیث میں وارد ہوا ہے: