اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
حضرت ابوہریرہ صآپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں : لاَ تُنْکَحُ الثَّیِّبُ حَتّٰی تُسْتَأْمَرَ، وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتّٰی تُسْتَأْذَنَ وَاِذْنُہَا الصُّمُوْتُ۔ (ترمذی: کتاب النکاح: باب ما جاء فی استیمار البکر والثیب) ترجمہ: شوہر دیدہ کا نکاح نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس سے حکم (صریح اجازت) لے لی جائے، اور کنواری کا نکاح نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس سے اجازت لے لی جائے، اور اس کی اجازت (کا ادنی درجہ) خاموشی ہے۔ ان احادیث کا ماحصل یہی ہے کہ عورت سے بہرحال اجازت لی جائے، کنواری لڑکی کی اجازت کا ادنی درجہ خاموشی اس وقت معتبر ہے جب قرائن سے اس کی رضامندی معلوم ہوتی ہو۔لڑکی کو مجبور نہ کرنا مذکورہ بالاحدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بالغ وعاقل لڑکی کو مجبور کرنا شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے، اکثر فقہاء کا یہی مسلک ہے، اور عقل بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔ (زاد المعاد لابن القیم ۴؍۳) امام ابن تیمیہؒ سے پوچھا گیا کہ کیا باپ اپنی کنواری بالغ لڑکی کو نکاح پر مجبور کرسکتا ہے؟ مجبور کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ: ’’مجبور کرنا عقل ونقل دونوں کے خلاف ہے، ولی اور سرپرست کھانے، پینے، لباس اور خرید وفروخت پر جب مجبور نہیں کرسکتا، تو لڑکی کو اس کی مرضی کے خلاف شادی پر کیسے مجبور کرسکتا ہے؟ ازدواجی رشتہ سکون ومحبت کا متقاضی ہوتا ہے، اور جبریہ شادی میں سکون اور محبت دونوں ناپید رہتے ہیں ‘‘۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ۳۲؍۲۵)بلااجازت شادی کا حکم اسلام نے لڑکی کی رضامندی اور اجازت کو اس درجہ اہمیت دی ہے کہ اگر سرپرست