اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
جو ان کے لئے ہر مرحلۂ زندگی میں راہ نما ثابت ہو، اور ان کے دل میں خوفِ خدا کی وہ کیفیت پیدا کرے جو گناہوں کی وادی میں قدم رکھنے سے روک سکے، اور دوسری ذمہ داری والدین کی یہ ہے کہ بلوغ کے بعد اولاد کی شادی کی فکر کریں ، اور اس باب میں غفلت اور کسل مندی کو ہرگز آڑے نہ آنے دیں ، اگر وقت پر اولاد کی شادی نہ کی جائے، خواہ اس کا سبب مال ہو یا کچھ اور، اور خدا نخواستہ اولاد گناہ میں مبتلا ہوجائے، تو اولاد کے ساتھ والدین بھی گناہ سے بچ نہیں سکیں گے۔ امام ابن قدامہ صراحت کے ساتھ لکھتے ہیں : وَیَلْزَمُ الرَّجُلَ اِعْفَافُ اِبْنِہٖ، اِذَا احْتَاجَ اِلیَ النِّکَاحِ۔ (المغنی ۷؍۵۸۷) ترجمہ: بیٹا نکاح کا ضرورت مند ہو تو باپ کے لئے اس کا نکاح کرنا اور اس کی عفت کا انتظام کرنا لازم ہے۔ ایک مغربی مفکر نے لکھا ہے: ’’آج والدین اولاد کے نکاح وعفت کی طرف توجہ کے بجائے اس کی اور اپنی آمدنی اور جیب پر توجہ دیتے ہیں ، والدین اپنی جوانی گذار چکے ہیں ، اب ان کو خدا جانے کیوں اولاد کے جوان جذبات کا احساس وپاس نہیں رہتا، والدین کو چاہئے کہ آمدنی اور پیسوں کا معاملہ دوسرے درجہ میں رکھیں ، اور اولاد اور سماج کی پاکیزگی اور سکون کو پہلے درجے میں رکھیں ، اور نظام فطرت سے بغاوت نہ کریں ، اور مالی قربانی پیش کرکے اپنی اولاد کی فوری شادی کی ذمہ داری نبھائیں ‘‘۔ (مباہج الفلسفہ: ۱۲۹-۱۳۰،مصنفہ: ڈاکٹر وِل ڈیورانٹ، مترجمہ عربی: د/احمد فواد)نکاح کے باب میں معاشرہ کی ذمہ داری والدین کو مسئول بنانے کے علاوہ اسلام نے پورے معاشرے کو بے نکاحوں کی شادی کا ذمہ دار بنایا ہے۔ قرآنِ کریم ہر مسلمان کو صراحۃً خطاب کرتا ہے: وَاَنْکِحُوْا الْاَیَامیٰ مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآئِ کُمْ۔ (النور: ۳۲) ترجمہ: تم اپنے میں سے مجرد وبے نکاح لوگوں ، اور اپنے غلاموں