اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
نکاح سنت انبیاء ورسل ہے اسلام نے نکاح کی ترغیب وتاکید اس انداز سے بھی فرمائی ہے کہ اسے انبیاء کی عام سنت بتایا ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے: وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِنْ قَبْلِکَ، وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجاً وَّذُرِّیَۃً۔ (الرعد: ۳۸) ترجمہ: آپ سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں ، اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا۔ بقول امام قرطبیؒ: ’’یہ آیت کریمہ نکاح کی ترغیب وتاکید کررہی ہے، اور بے نکاحی زندگی سے روک رہی ہے، اور نکاح کو پچھلے رسولوں کی سنت قرار دے رہی ہے‘‘۔ (تفسیر قرطبی ۹؍۳۲۷) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتی ہیں : اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ، فَمَنْ لَمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ، وَتَزَوَّجُوْا فَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْاُمَمَ،وَمَنْ کَانَ ذَا طَوْلٍ فَلِیَنْکِحْ، وَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَعَلَیْہِ بِالصِّیَامِ، فَاِنَّ الصَّوْمَ لَہٗ وِجَائٌ۔ (صحیح ابن ماجۃ للابانی: ۱؍۳۱۰) ترجمہ: نکاح میری سنت ہے، جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ مجھ سے (میرے طریقے پر) نہیں ہے، تم شادیاں کرو، میں دیگر امتوں پر تمہاری کثرت کی وجہ سے فخر کروں گا، جو بھی وسعت رکھتا ہو ضرور نکاح کرے، وسعت نہ رکھتا ہو تو روزوں کا اہتمام کرے، روزہ اس کے زور شہوت کو توڑدے گا۔ اس حدیث پاک میں ’’سنت‘‘ سے مراد طریقہ ہے، اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جو نکاح نہیں کرتا وہ پیغمبرانہ طریقے کو چھوڑکر اور اتباع واطاعت کے بجائے رہبانیت اور ترکِ دنیا کا غیر شرعی طریقہ اپناتا ہے۔ (نیل الاوطار: شوکانی ۶؍۱۱۷) حضرت عکاف بن وداعہ ص خدمت نبوی میں حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: