اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
پر مسلمانوں کو ابھارتا ہے، اس لئے والدین پر اولاد کے نکاح کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، مسلم معاشرہ کو اس کا پابند ومکلف بنایا گیا ہے کہ ناداروں کی شادی میں تعاون کیا جائے، اسلامی حکومت کو مسئول بنایا گیا ہے کہ وہ ناداری کی وجہ سے بے نکاح رہنے والوں کے نکاح کا قومی خزانے اور بیت المال سے بندوبست کرے۔اولاد کے نکاح کے تئیں والدین کا فرض جہاں تک والدین کا تعلق ہے تو یہ بالکل واضح ہے کہ شریعت نے ان کو اولاد کی عفت کے تحفظ کی ذمہ داری بھی دی ہے، اور عفت کا تحفظ نکاح کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حضرت ابوسعید خدری ص اور حضرت ابن عباس صدونوں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں : مَنْ وُلِدَ لَہٗ وَلَدٌ، فَلِیُحْسِنْ اِسْمَہٗ وَاَدَبَہٗ، فَاِذَا بَلَغَ فَلِیُزَوِّجْہُ، فَاِنْ بَلَغَ وَلَمْ یُزِوِّجْہُ، فَاَصَابَ إِثْماً فَاِنَّمَا اِثْمُہٗ عَلیٰ اَبِیْہِ۔ (مشکاۃ المصابیح: کتاب النکاح: باب الولی فی النکاح ۲۷۱، بحوالہ شعب الایمان) ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو، وہ بچے کا اچھا نام رکھے، تربیت کرے، جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کرے، بلوغ کے بعد اگر باپ نے شادی نہیں کی اور اس سے گناہ ہوگیا، تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہے۔ اِسی طرح تورات کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمایا: فِیْ التَّوْرَاۃِ مَکْتُوْبٌ: مَنْ بَلَغَتْ ابْنَتُہٗ ثِنْتَیْ عَشَرَۃَ سَنَۃً وَلَمْ یُزَوِّجْہَا فَاَصَابَتْ اِثْماً فَاِثْمُ ذٰلِکَ عَلَیْہِ۔ (ایضاً) ترجمہ: تورات میں تحریر ہے کہ جس کی لڑکی بارہ سال کی ہوجائے (بالغ ہوجائے) اور وہ اس کی شادی نہ کرے اور اس لڑکی سے کوئی گناہ صادر ہوجائے تو وہ گناہ اس شخص پر ہوگا۔ اِن احادیث سے معلوم ہوا کہ والدین کی ایک ذمہ داری اولاد کی ایسی تعلیم وتربیت ہے