اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ترجمہ: جو اپنی نگاہ کو آزاد وبے لگام رکھتا ہے وہ اپنی (روحانی) موت کو دعوت دیتا ہے۔ یعنی بدنگاہی قلب وروح کی موت کے مرادف ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ: ’’میں ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ ث سے سوال فرمایا: اَیُّ شَیْئٍ خَیْرٌ لِلْمَرْأَۃِ؟ عورت کے لئے کیا چیز بہتر ہے؟ صحابۂ کرام ث خاموش رہے، جواب نہیں دیا، پھر جب میں گھر میں گیا اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے میں نے یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: لَاْ یَرَیْنَ الرِّجَالَ وَلاَ یَرَوْنَہُنَّ۔ یعنی عورتوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ نہ وہ مردوں کو دیکھیں اور نہ مرد ان کو دیکھیں ۔ میں نے ان کا یہ جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نقل کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: صَدَقَتْ اِنَّہَا بِضْعَۃٌ مِنِّیْ۔ انہوں نے درست کہا، بے شک وہ میرا ایک جزء ہیں ۔ (معارف القرآن ۷؍۲۱۶) چناں چہ حضور اکرم انے اپنی بعض ازواج کو حکم دیا کہ وہ نابینا صحابہ ث سے بھی پردہ کریں ؛ کیوں کہ ازواج تو نابینا نہیں ہیں ، اور ان کے لئے کسی اجنبی مرد کا خواہ وہ نابینا ہو، دیکھنا درست نہیں ہے۔عورتوں کی طرف سے زینت کا اظہار قرآنِ کریم میں ازواجِ مطہرات کو براہِ راست اور تمام عورتوں کو بالواسطہ حکم دیا گیا ہے: وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلیٰ۔ (الاحزاب: ۳۳) ترجمہ: اور سابق دورِ جاہلیت جیسی سج دھج دکھاتی نہ پھرو۔ اس آیت میں عورتوں کو ’’تبرج‘‘ سے منع کیا گیا ہے، جس کی حقیقت اپنے چہرے اور جسم کے حسن کی نمائش، اپنے لباس اور زیور کی زیبائش کا علانیہ مظاہرہ اور اپنی چال ڈھال سے اپنے کو دوسروں کے سامنے نمایاں کرنا ہے۔ امام ابوعبیدہ کے بقول: