اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ذریعہ ہے، اور جو شادی نہ کرسکتا ہو وہ روزے رکھے؛ کیوں کہ روزے آدمی کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کردیتے ہیں ۔شادی نہ کرسکنے کی صورت میں روزوں کا اہتمام احادیث میں وضاحت آئی ہے کہ شادی کی وسعت وقدرت نہ رکھنے والے کو زنا اور حرام سے بچنے کے مقصد سے روزوں کا اہتمام کرنا چاہئے۔ حافظ ابن حجرؒ کے بقول: ’’نکاح کی شہوت کھانے کی شہوت کے تابع ہوتی ہے، کھانے کی مقدار بڑھنے سے شہوت بڑھتی ہے، اور بھوک شہوت کا زور کم کرتی ہے، اس لئے روزوں کی پابندی عفت وعصمت کی حفاظت کا مؤثر نسخہ ہے‘‘۔ (فتح الباری ۹؍۱۴) ایک مفکر نے لکھا ہے کہ: ’’روزہ انسان کو مقام بلند پر متمکن کرتا ہے، اس کے فیض سے ضبط نفس اور قابویابی کی دولت ملتی ہے، روزے میں انسان جس طرح حکم الٰہی کی اطاعت میں کھانے پینے سے رکا رہتا ہے، اسی طرح محض حصول رضائے الٰہی کے جذبے سے اپنی جنسی شہوت کو بھی لگام دیئے رہتا ہے، روزہ تربیت، شہوت پر کنٹرول اور ارادے کی قوت اور استقامت پیدا کرنے میں بے حد ممد ومعاون چیز ہے، اور صدیوں سے دور نبوی سے آج تک روزے کے یہ اثرات نمایاں اور محسوس شکل میں نظر آرہے ہیں ‘‘۔ (الاسلام: سعید حوی ۱؍۱۶۴) اسلام کی یہ ہدایت ہے کہ جنسی رجحانات اگر زور آور اور سرکش ہوجائیں اور ان کے افراط سے مبتلائے گناہ اور آلودۂ عصیاں ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہوجائے تو روزوں کی پابندی کی جائے، نفس اور ہوائے نفس کے سرکش گھوڑے کو لگام دینے کا یہ طریقہ بے حد حکیمانہ اور دانش مندانہ ہے، اور اس کی تاثیر مجرب ہے۔عورتوں کا بے ضرورت نکلنے سے اجتناب اور گھروں میں قیام عورت کا گھر میں رہنا سماج کو فتنہ سے محفوظ رکھنے اور شر وفساد کا دروازہ بند کرنے کے