اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
سلام کرو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے؛ تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اجازت طلبی کا یہ حکم مردوں اور عورتوں سب کے لئے ہے، اور خاص اوقات میں نابالغ بچوں کے لئے بھی ہے۔ استیذان کا شرعی حکم بدنظری اور بدکاری سے محفوظ رکھنے کے لئے ہے، اس سے جاہلیت کے اس طریق کا بھی سدباب ہوگیا جس میں لوگ بے دھڑک بلااجازت دوسروں کے گھروں میں گھس آتے تھے۔ شریعت نے یہ عام اصول بنادیا کہ ہر شخص کو اپنے گھر میں تخلیہ کا حق ہے اور کسی کے لئے بلااجازت مداخلت جائز نہیں ہے۔ اسی اصول کے تحت استیذان کا حکم دیا گیا، دوسرے گھر میں جھانکنے سے منع کیا گیا، دوسرے کا خط بلااجازت پڑھنا یا ٹیلی فون سننا ممنوع قرار دیا گیا۔شرعی حدود کی تنفیذ فواحش وجرائم کے انسداد کے لئے اسلام میں حدود وتعزیرات کا انتہائی جامع اور مؤثر نظام تشکیل دیا کیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: حَدٌّ یُعْمَلُ بِہٖ فِیْ الْاَرْضِ خَیْرٌ لِاَہْلِ الْاَرْضِ مِنْ اَنْ یُمْطَرُوْا اَرْبَعِیْنَ صَبَاحاً۔ (صحیح ابن ماجہ للالبانی ۲؍۷۸) ترجمہ: اسلامی سزا کا نافذ کرنا انسانوں کے لئے چالیس دنوں کی بارش کے نفع سے بھی زیادہ مفید ہے۔ زنا اور بدکاری اور ناجائز شہوت رانی پر رجم (سنگسار کئے جانے) اور جلد (کوڑوں ) کی سزا کا مقصد یہی ہے کہ مجرم دوبارہ اس جرم کی ہمت نہ کرسکے، دوسرے افراد کو عبرت ہو، اور سماج پر امن ہوجائے اور اللہ کی رحمتیں متوجہ ہوں ، جس سماج میں زنا کو گوارا کرلیا جائے اس سماج سے اللہ کی رحمتیں روٹھ جاتی ہیں ۔ زنا کی سزا صرف سزا ہی نہیں ؛ بلکہ یہ اعلان بھی ہے کہ مسلم معاشرہ اخلاقی قیود وحدود سے آزادی وبے لگامی اور ناجائز شہوت رانی بالکل گوارا نہیں