اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
اس مقدار کی تعیین واجب نہیں ہے، اس سے کم یا زیادہ دونوں کی گنجائش شرع میں ہے، تاہم اس مقدار کی اتباع میں سنت کی اتباع ومطابقت کاثواب حاصل ہوتا ہے، جو بہت بڑی نعمت ہے۔جہیز کا ناسور نکاح کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ جہیز کی جاہلانہ اور ظالمانہ رسم بد بھی ہے، ماحول ایسا بنادیا گیا ہے کہ لڑکی کے والدین اور اولیاء ایک ناقابل بیان بوجھ تلے دبے رہتے ہیں ، اور گھر کی تمام ضروریات، کمالیات وجمالیات، زینت وآرائش کے تمام ساز وسامان، لڑکے اور لڑکی سے متعلق تمام اشیاء، اس پر مستزاد لڑکے کے والدین، بھائی، بہن اور دیگر تمام قریبی اعزہ کے لئے بیش قیمت اور قابل ذکر تحفوں کا انتظام یہ سب کچھ، پھر مزید براں شادی کے موقعے پر عمدہ قیام وطعام کا انتظام لڑکی کے والدین اور ذمہ داروں کا فرض قرار دے دیا گیا ہے، اور اس میں ادنی کوتاہی ناقابل معافی جرم سمجھی جاتی ہے۔ جہیز کی اس ملعون ومنحوس وبا نے نہ جانے کتنے گھروں کو اجاڑ ڈالا ہے، نہ جانے کتنی لڑکیاں کنواری بن بیاہی بیٹھی ہیں ، نہ جانے کتنی خواتین اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور نہ جانے کتنی جائیدادیں گنوائی جاچکی ہیں ۔ والدین اپنی لڑکی کو بخوشی، بلاجبر ومطالبہ، کچھ دیں ، اس کو ضرورت وزینت کی اشیاء فراہم کریں ، یہ بجائے خود درست اور مناسب ہے۔ خود حضور اکرم انے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رخصتی کے موقعے پر کچھ چیزیں عطا کی تھیں ، احادیث میں ان کا ذکر بھی آیا ہے، آپ کا یہ تحفہ صرف ایک چادر، تکیہ، گدا، چکی، مشکیزہ اور گھڑے پر مشتمل تھا۔ (ملاحظہ ہو: ابن ماجہ، صفۃ الصفوۃ: ابن جوزی ۲؍۴۵۳، البدایہ والنہایہ ۳؍۳۴۶،مسند احمد ۱؍۱۰۴) لیکن جہیز کا مطالبہ اور مطلوبہ مقدار نہ ملنے پر اظہار ناراضگی اور تعلقات کی کشیدگی ہمارے سماج کا وہ ناسور ہے جو گھن کی طرح سماج کے اعلیٰ اخلاقی اقدار کو کھاتا جارہا ہے، جہیز