اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
کُلُّ خَاطِبٍ کَاذِبٌ۔ ترجمہ: ہر پیغام دینے والا جھوٹا ہوتا ہے۔ اس کا مفہوم یہی ہے کہ پیغام نکاح دے کر اس بہانے سے ملاقاتیں اور تفریحیں رچانے والے لوگ بالعموم جھوٹے ہوتے ہیں ، اور ایسے تعلقات باضابطہ شرعی عقد کی حد میں آنے سے قبل ہی ختم ہوجاتے ہیں ، اس لئے بے حد پھونک پھونک کر قدم اٹھانے اورمحتاط وہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔لڑکی سے اجازت طلبی اسلام نے سرپرستوں کو یہ تاکید کی ہے کہ لڑکیوں کے نکاح سے قبل ان سے ضرور اجازت لے لی جائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: ’’یہ جائز نہیں کہ عورتوں کے نکاح کا پورا اختیار مردوں کو دے دیا جائے؛ کیوں کہ اولیاء وہ بات نہیں جانتے جو عورت اپنی ذات کے بارے میں جانتی ہے، اور نکاح کا گرم سرد بھی اسی کو چکھنا پڑے گا، اس لئے اس کی مرضی معلوم کرنا ضروری ہے، پھر شوہر دیدہ عورت سے صراحۃً اجازت لینی ضروری ہے، کنورای عاقلہ بالغہ لڑکی سے بھی اجازت لینی ضروری ہے،اور اس سے اجازت لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ انکار نہ کرے، جس کا ادنی درجہ خاموشی ہے، اگر لڑکی نابالغہ ہو تو اس سے اجازت لینی ضروری نہیں ہے؛ کیوں کہ اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی، اس کا نکاح ولی اپنی صواب دید سے کرسکتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کے والد حضرت ابوبکر صدیق صنے اپنی صواب دید سے کیا تھا، جب کہ ان کی عمر کل چھ سال تھی۔ (رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغہ،از: مفتی سعید پالن پوری صاحب مدظلہ ۵؍۵۷) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑکی سے اجازت کا مسئلہ دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس کی مرضی معلوم کی جائے گی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ لڑکی شرمائے تو کیا ہو؟ فرمایا: خاموشی ہی اس کی طرف سے اجازت ہے۔ (مسلم شریف)