اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
مرادف ہے۔ قرآنِ کریم میں ازواجِ مطہرات کو براہِ راست اور بالواسطہ تمام عورتوں کو یہ تاکید کی گئی ہے: وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الاُوْلیٰ۔ (الاحزاب: ۳۳) ترجمہ: اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سَج دَھج نہ دکھاتی پھرو۔ معلوم ہوا کہ عورت کا اصل دائرۂ کار اس کا گھر ہے، اسے چراغ خانہ بنایا گیا ہے نہ کہ شمع محفل، اسے اپنے تمام کام اور سرگرمیاں گھر کے اندر جاری رکھنی ہیں ، اور گھر سے باہر بلاضرورت قدم نہیں نکالنا ہے۔ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں عورتیں بے پردہ نکلتی اور اپنے جسم وپوشاک کی زینت وزیبائش کی علانیہ نمائش کرتی تھیں ، اسلام نے بڑی صراحت کے ساتھ اس پر قدغن لگادی اور تحفظ عصمت کے لئے بلاشدید ضرورت باہر نہ نکلنے اور مرد کے لئے عورت کو اور عورت کے لئے مرد کو نہ دیکھنے کا قانون بنادیا، اسی طرح غیر مرد سے ضرورت پر پردے کی آڑ سے بات کرنے اور لہجہ واسلوب میں لوچ اور نزاکت نہ رکھنے کا حکم دیا، اور واضح کردیا کہ عورتوں کا زیب وزینت کی نمائش کے لئے باہر نکلنا جاہلیت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ص رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی ہیں : اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإذَا خَرَجَتْ اِسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ، وَأَقْرَبُ مَا تَکُوْنُ بِرَوْحَۃِ رَبِّہَا وَہِیَ فِیْ قَعْرِ بَیْتِہَا۔ (تفسیر ابن کثیر ۴؍۲۱۸) ترجمہ: عورت پردہ کی چیز ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے، اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اس وقت ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے گھر میں ہو۔ علامہ قرطبی کے بقول: ’’آیت میں اگرچہ خطاب ازواج مطہرات کو ہے؛ لیکن اس کے عموم میں تمام عورتیں شامل ہیں ، اور سب گھروں میں رہنے اور بے ضرورت نہ نکلنے کی پابند ہیں ‘‘۔ (تفسیر القرطبی ۱۴؍۱۷۹)