اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
شکر وسپاس صفاتِ نبوت میں سے ہے، اور اسے انبیاء کے امتیازی اوصاف میں شمار کیا گیا ہے، خداوند قدوس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصاف میں {شاکراً لأنعمہ} (اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا) اور حضرت نوح علیہ السلام کی صفات میں {إِنَّہٗ کَانَ عَبْداً شَکُوْراً} (وہ بہت زیادہ شکر ادا کرنے والے بندے تھے) فرمایا ہے۔ شکر کے بالمقابل ناشکری اور کفرانِ نعمت ہے، قرآنِ کریم میں فرمایا گیا: إِنَّا ہَدَیْنَاہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَاِمَّا کَفُوْراً۔ (الدہر: ۳) ترجمہ: ہم نے انسان کو راستہ دکھادیا کہ وہ یا تو شکر گذار ہو یا ناشکرا بن جائے۔ شکر چوں کہ اللہ کو بے حد پسند ہے؛ اس لئے شیطان اپنی پوری توانائی اس پر صرف کرتا ہے کہ اللہ کے بندے اور بندیاں اللہ کے شکر گذار نہ بنیں ، اور ان کی زبان یا عمل سے ناشکری کا ارتکاب ہوتا رہے، شیطان نے اللہ کے سامنے اپنے عزائم کا اظہار قرآن کی زبان میں اس طرح کیاتھا: ثُمَّ لآتِیَنَّہُمْ مِنْ بَیْنِ أَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِہِمْ، وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ۔ (الأعراف: ۱۷) ترجمہ: پھر میں اِن پر چاروں طرف سے حملے کروں گا، ان کے سامنے سے بھی، اور ان کے پیچھے سے بھی، اور ان کی دائیں طرف سے بھی، اور اُن کی بائیں طرف سے بھی، اور تو اُن میں سے اکثر لوگوں کو شکر گذار نہیں پائے گا۔ شیطان کے اسی حملے اور وسوسے کا اثر ہے کہ انسانوں کی اکثریت ناشکری کرتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: إِنَّ الإِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ۔ (ابراہیم: ۳۴) ترجمہ: بلاشبہ انسان بہت بے انصاف، بڑا ناشکرا ہے۔