اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
وبند کی دشواریاں برداشت کرلیں ، پر دامن عفت کو داغ دار کرنا گوارا نہیں کیا۔ خدا نے ان کی دعا کو شرفِ قبول سے نواز دیا، اور انہیں عورتوں کے فریب اور سازشوں سے نجات عطا کردی۔ اتنی شہادتوں کے باوجود سیدنا یوسف علیہ السلام کی عبدیت وتواضع کا عالم یہ تھا کہ فرمایا: وَمَا اُبَرِّئُ نَفْسِیْ، اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْ۔ (یوسف) ترجمہ: میں اپنے نفس کو (بالذات) بری اور پاک نہیں بتاتا؛ کیوں کہ نفس تو ہر ایک کا بری بات بتاتا ہے، بجز اس کے جس پر میرا رب رحم فرمائے۔ (اس لطیف وعجیب موضوع کی تفصیل مرشدی حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب مدظلہ کی تصنیف ’’معرفت الٰہیہ‘‘ میں ہے) حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ حقیقت واضح فرمادی ہے کہ میں اپنے نفس کو گناہوں سے بالاتر نہیں قرار دیتا، نفس سب کے ساتھ ہے اور برائی کے لئے وسوسہ اندازیاں کرتا ہے، اس کے شر سے وہی بچ پاتا ہے جو خدا کی رحمت وفضل کے سائے میں رہے، حضرت یوسف علیہ السلام کی نفسانی وشہوانی فتنوں سے حفاظت اللہ کی رحمت وعنایت کا فیض تھا۔ مولانا اصلاحیؒ لکھتے ہیں : ’’سنتِ الٰہی ہے کہ اللہ نے انسان کو نیکی اور بدی الہام فرماکر اختیار دیا ہے، اگر انسان نیکی کی راہ اختیار کرتا ہے اور اس راہ میں پیش آنے والی آزمائشوں کا پامردی سے مقابلہ کرتا ہے، تو اللہ اس کی طرف رحمت وعنایت سے متوجہ ہوتا ہے، اور اس کی راہ کو آسان کردیتا ہے، یہاں تک کہ وہ منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے نفس کے اعلیٰ داعیات کو اختیار فرمایا اور اس راہ کی تمام مزاحمتوں کا پوری پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا، یہاں تک کہ نفس کے سفلی داعیات ان کے آگے سپرانداز ہوگئے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس مرتبۂ بلند کی سرفرازی بخشی جو ان کے لئے مقدر تھا‘‘۔ (تدبر قرآن ۴؍۲۲۶) قرآن حضرت یوسف کی داستان پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے اور یہ بیان محض ایک تاریخی داستان کے طور پر نہیں ہے؛ بلکہ یہ بیان صبح قیامت تک آنے والے