اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
یوسف علیہ السلام کا صبر عن الزنا (زنا سے فرار اور نفرت) کنویں میں ڈالے جانے، فروخت کئے جانے، غلام بنائے جانے اور باپ سے جدا کئے جانے کی تمام مصیبتوں پر صبر سے بڑھا ہوا تھا؛ کیوں کہ گناہ سے دوری صبر اختیاری ہے، جب کہ بقیہ آزمائشوں پر صبر اضطراری تھا، گناہ سے بچنے میں نفس سے جنگ ہے، پھر جب کہ دعوتِ گناہ پر لبیک کہنے کے مواقع اور چانسز جمع ہوگئے ہوں ، تب تو بچنا بہت مشکل ہوتا ہے، حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے میں یہی چیز ملتی ہے۔ (۱) ایک تو وہ جوان تھے، بھرپور جوان (۲) دوسرے غیر شادی شدہ تھے (۳) تیسرے غریب الوطن تھے (۴) چوتھے غلام تھے، عنفوانِ شباب ہو، تجرد کی زندگی ہو، وطن سے دوری ہو، اور غلامی کی زندگی ہو (۵) اور ساتھ ہی حسین وجمیل، مال دار وصاحب منصب عورت از خود پیش کش کرے (۶) اور پیش کش قبول نہ کرنے کی صورت میں قید وبند اور تذلیل واہانت کی دھمکی بھی دے رہی ہو، تو ایسے حالات میں قدم کا گناہ کے راستے سے ہٹنا اور نفس کو دبانا جہادِ اکبر سے کم نہیں ۔ (ملاحظہ ہو: بدائع التفسیر ۲؍۴۴۸-۴۵۱) قرآن نے حضرت یوسف علیہ السلام کی عبدیت کاملہ کا ذکر بڑے حسین اسلوب میں کیا ہے، حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکیزگی اور براء ت کی پہلی شہادت خاندانِ شاہی کے ایک بچے نے دی، جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے۔ دوسری شہادت حضرت یوسف علیہ السلام کے قید خانے کے ساتھی کی ہے، جس نے حضرت یوسف علیہ السلام سے {یُوْسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیْقُ} (یوسف! اے صدق مجسم) کہہ کر خطاب کیا، اور آپ کی صداقت وبراء ت کا اعلان کردیا۔ تیسری شہادت مصر کی ان خواتین کی ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے جمال کامل کو دیکھ کر اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھی تھیں ، انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکیزگی کی گواہی دی۔ چوتھی شہادت خود عزیز مصر کی بیوی کی ہے جس نے حقیقت حال عیاں ہوجانے کے بعد اپنے جرم ومکر کا اعتراف اور سیدنا یوسف علیہ السلام کی براء ت اور عفت وتقویٰ کا برسر عام اقرار واعتراف کیا۔ پانچویں شہادت خود خدائے سمیع وبصیر نے قرآنِ مقدس میں دی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے قید