اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
انسانوں خصوصاً نوجوانوں کے لئے ایک پیغام ہے، ایک درسِ موعظت ہے اور اس کے ذریعے ہر مسلمان کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ سیرتِ یوسفی معیار ہے، اسے نمونہ بنانا ہے، اور اپنی عفت وعصمت کے آبگینے کی اسی طرح حفاظت کرنی ہے اور بہر قیمت اسے چور چور ہونے سے بچانا ہے۔ مولانا آزاد نے اپنے ساحرانہ اسلوب میں جھنجھوڑا ہے: ’’تم چشم تصور سے کام لو اور دیکھو! ترغیبات کی قہر وسلطانی کا کیا حال تھا، اور عیش نفس کی یہ دعوت کیسے شکیب آزما سامانوں اور صبر ربا حالتوں کے ساتھ پیش آئی تھی، عمر عین عروج شباب کی عمر، اور معاملہ محبت کا نہیں محبوبیت کا، طلب کا نہیں مطلوبیت کا، پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ موانع بالکل مرتفع ہوگئے، جہاں کوئی انسانی آنکھ دیکھنے والی نہیں ، کوئی پردۂ حجاب حائل نہیں ، کون ہے جو ایسی حالت میں بھی اپنے آپ کو قابو میں رکھ سکتا ہے؟ عفت وپاکی کا کون سا پہاڑ ہے جو ان بجلیوں کی تاب لاسکتا ہے؟ لیکن ایک پہاڑ تھا جسے یہ بجلیاں بھی نہ ہلاسکیں ، یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت تھی جو کسی حال میں بھی متزلزل نہیں ہوئی، اور ان کی بے داغ فضیلت پر نفس انسانی کا سب سے بڑا فتنہ بھی دھبا نہ لگاسکا، یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت کا سب سے زیادہ عظیم الشان مظاہرہ ہے، یہ عشق حق کا نمونہ ہے، یہ پرستارئ صدق کا دستور العمل ہے، یہ ایمان کامل کا معیار ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن ۲؍۸۴۳-۸۴۷) حضرت یوسف علیہ السلام کا کردار نوجوانانِ امت کے لئے آئیڈیل کردار ہے، انسان کا ایمان اسی وقت محفوظ رہ سکتا ہے اور اس کا قلب وضمیر اسی وقت پاکیزہ ہوسکتا ہے جب وہ اپنی عفت وعصمت کے تحفظ کے تعلق سے بے حد حساس اور فکر مند ہوجائے، اور ہر قدم پر اس کی یہی کوشش رہے کہ اس کا دامن عفت کبھی داغ دار وآلودہ نہ ہونے پائے، اور زندگی کے کسی موڑ پر اس سے ایسی کوئی حرکت سرزد نہ ہونے پائے، جو اس کی عصمت کے تقدس کو مجروح کرے، یہ انسان کا مذہبی، اخلاقی اور سماجی فریضہ ہے، جس میں کوتاہی مذہبی امور میں کھوکھلا کردیتی ہے، سماجی نظام کو درہم برہم کرتی ہے اور اخلاقی نظام کی خالصیت پر تیشہ چلا دیتی ہے۔ ،l،