اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
’’حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے زنا کے ایسے قوی دواعی واسباب آگئے تھے، جن سے ٹکراکر بڑے سے بڑے زاہد کا تقویٰ بھی پاش پاش ہوجاتا، مگر خدا نے جس کو محسن قرار دے کر علم وحکمت کے رنگ میں رنگین کیا اور پیغمبرانہ عصمت کے بلند مقام پر پہنچایا، اس پر کیا مجال تھی کہ شیطان کا قابو چل جاتا، اس نے ایک لفظ کہا: ’’معاذ اللہ‘‘ (خدا کی پناہ) اور شیطانی چال کے سارے حلقے توڑ ڈالے؛ کیوں کہ جس نے خدا کی پناہ لی اس پر کس کا وار چل سکتا ہے؟‘‘۔ (تفسیر عثمانی ۱؍۶۶۹) اس کے بعد بھی وہ خاتون حضرت یوسف علیہ السلام کے پیچھے پڑی رہی، ان کے خلاف سازشوں کے جال بنے جاتے رہے، دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا، بالآخر حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا کی: رِبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْ اِلَیْہِ۔ (یوسف: ۳۳) ترجمہ: اے میرے پروردگار! جیل مجھے (اس گناہِ زنا سے)زیادہ پسند ہے۔ ان کے سامنے دو راستے تھے: (۱) معاذ اللہ زنا کے مرتکب ہوجائیں (۲) قید وبند کی آزمائش میں اپنے کو مبتلا کریں ، مگر ان کے صبر اور تقویٰ کی قوت تھی کہ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا، قید وبند کی صعوبتیں گوارا کرلیں ، مگر گناہ کی دلدل میں پھنسنا گوارا نہیں کیا، اپنے دین کی حفاظت کے لئے اپنی دنیا قربان کردی، اپنی عفت کی حفاظت کے لئے اپنی آزادی قربان کردی۔ مفسر ابن کثیرؒ کے بقول: ’’حضرت یوسف علیہ السلام کمال صدیقیت کے مقام عالی پر فائز تھے، مکمل حسن وجمال، شباب وقوت اور کمال وفضل کی نعمتوں سے بہرہ مند تھے، دوسری طرف جوان وحسین خاتون آپ کو دعوتِ زنا دے رہی تھی، اس پر بھی خوفِ خدا اس درجہ غالب ہے کہ ان لذتوں کو ٹھکراکر قید وبند کی مشقتیں گوارا کرلیتے ہیں ‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ۳؍۱۳۰) امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ عزیز مصر کی بیوی کی دعوتِ زنا پر حضرت