اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ناجائز تعلقات قائم کرنے پر مصر ہوگئی، مگر حضرت یوسف علیہ السلام دامن جھاڑکر الگ ہوگئے، زنا جیسی معصیت کی دعوت ایک حسین خاتون کی طرف سے گوشۂ خلوت میں تھی، مگر حضرت یوسف علیہ السلام کا تقویٰ اور جذبۂ تحفظ عصمت وعفت بہت مکمل تھا، وہ گناہ سے دور اور نفور رہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کے لئے سب سے بڑی آزمائش جذبات کی آزمائش ہوتی ہے، موجِ سمندر ہو، برقِ سماوی ہو، تلواروں کی جھنکار ہو، درندوں کا سامنا ہو، غرضیکہ جو بھی چیز ہو انسان اس سے ہراساں ، لرزاں وترساں ہوئے بغیر اس کا مقابلہ کرتا ہے، مگر نفس کی معمولی سی ترغیب اور جذبات کی ادنیٰ سی کشش انسان کو بے بس کردیتی ہے اور وہ نفس کے دام میں پھنس جاتا ہے، مگر حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت کی چٹان کسی بھی ترغیبِ نسوانی وشہوانی سے متزلزل نہیں ہوئی۔ مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمۃاللہ علیہ نے لکھا ہے: ’’حضرت یوسف علیہ السلام کے لئے یہ وقت سخت آزمائش کا وقت تھا، شاہی خاندان کی نوجوان عورت، شعلۂ حسن سے لالہ رو، محبوب نہیں ؛ بلکہ عاشق، آرائش حسن وزینت کی نمائش، عشق طرازیوں کی بارش، ادھر یوسف خود نوجوان، جمال ورعنائی کے پیکر مجسم، رخِ روشن شمس وقمر کی طرح منور، دروازے بند،رقیب کا خوف نہ ڈر، مگر ان تمام سازگار حالات نے کیا یوسف کے دل میں ایک لمحے کے لئے بھی عزیز مصر کی بیوی کی حوصلہ افزائی کی، کیا نفس نے جہانِ قلب کو ایک لمحہ کے لئے بھی متزلزل کیا؟ نہیں ،ہرگز نہیں ؛بلکہ اس کے برعکس اس پیکر عصمت، امین نبوت، مہبط وحی الٰہی نے یک لخت انکار کردیا‘‘۔ (قصص القرآن ۱؍۲۳۲) عزیز مصر کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو زلیخا نے الٹی اپنی مظلومیت ظاہر کردی، اور حضرت یوسف علیہ السلام پر تہمت لگادی، اللہ نے ایک شیر خوار بچے کو قوتِ گویائی دی اور اس نے عصمت یوسفی کی صریح شہادت دی، پھر سب کو زلیخا کے ارادۂ بد اور حضرت یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کا یقین ہوگیا۔ علامہ عثمانی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں :