اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
پاکیزگی داغ دار ہونے لگتی ہے۔ دین داری سب سے زیادہ قابل ترجیح وصف ہے، اس باب میں ہمارے لئے سب سے امتیازی نمونہ حضرت سعید بن مسیب سید التابعین رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جن کی انتہائی حسین وجمیل اور باکمال صاحب زادی کے لئے بادشاہِ وقت عبد الملک بن مروان نے اپنے شاہ زادے اور ولی عہد کا پیغام بھیجا تھا، انہوں نے عذر کردیا اور اپنے ہونہار غریب شاگرد ابووداعہؒ سے صاحب زادی کا نکاح کردیا، ابووداعہؒ نے اپنی ناداری کا ذکر کیا، تو حضرت سعیدؒ نے فرمایا کہ: تم معمولی آدمی نہیں ہو، تمہارے پاس دولت تقویٰ ہے، تم سے زیادہ مستحق کوئی نہیں ہے۔ پھر جب شام ہوئی تو اپنی لڑکی کا ہاتھ تھام کر ابووداعہؒ کے گھر پہنچادیا۔ (مختارات من ادب العرب ۱؍۹۹) حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے پاس ایک شخص آیا، اس نے کہا کہ میری ایک بیٹی ہے، مختلف لوگوں نے پیغام نکاح بھیجا ہے، آب مشورہ دیں کہ میں اس کی شادی کیسے شخص سے کروں ؟ حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کہ اس کی شادی ایسے آدمی سے کرو جو اللہ سے ڈرتا ہو، اور اس کی حکمت یہ بتائی کہ: فَاِنَّہٗ اِنْ اَحَبَّہَا اَکْرَمَہَا، وَاِنْ اَبْغَضَہَا لَمْ یَظْلِمْہَا۔ (ارشاد الساری شرح بخاری ۱۱؍۳۶۵) ترجمہ: کیوں کہ اگر وہ اسے پسند کرے گا تو اس کی قدر کرے گا، اور اگر ناپسند بھی کرے گا تو اس پر ظلم نہ کرے گا۔ آج ہماری سماجی صورتِ حال یہ ہے کہ دین داری کی بنیاد پر انتخاب کا مزاج عنقا ہوتا جارہا ہے، اور پوری توجہ مال دار اور خوب صورت رشتے پر دی جارہی ہے، اس کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑ رہا ہے کہ مسلم علاقوں میں بے شمار لڑکے اور لڑکیاں نکاح سے محروم ہیں ، دین کے بجائے دنیا کو معیار انتخاب بنانے کی نحوست یہ ہے کہ بے نکاحوں کا افراط ہے، اسی لئے بہت سی مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کے ساتھ فرار ہورہی ہیں ، اور نہ جانے کتنے مرد وزن گناہ اور بدکاری کی