اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
اسلام کے اس قانون کو مخالفین صنف نازک کے ساتھ ظلم قرار دیتے ہیں ، حالاں کہ اسلام نے یہ اجازت عدل کی شرط کے ساتھ دی ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً۔ (النساء: ۳) ترجمہ: اگر تم کو اندیشہ ہو کہ بیویوں میں انصاف نہ کرسکوگے تو صرف ایک سے نکاح کرو۔ تعدد ازدواج کی اجازت کے لئے جس عدل کی شریعت نے شرط لگائی ہے، اس کا مفہوم بقول علامہ کاسانیؒ یہ ہے کہ ان سب کے حقوق یکساں طور پر ادا کئے جائیں ، ضروری اخراجات، لباس، مکان، شب باشی، ہر چیز میں برابری اور مساوات رکھی جائے، بالکل برابری کا برتاؤ ہو، کسی کے ساتھ ترجیحی معاملہ نہ کیا جائے، کنواری اور بیوہ، جوان اور بوڑھی، حسین وبد صورت، سب کے ساتھ یکساں معاملہ ہونا چاہئے۔ (بدائع الصنائع ۲؍۶۴۷-۶۴۸) البتہ غیر اختیاری امور مثلاً قلبی تعلق اور میلان طبع میں شریعت مرد کو پابند نہیں بناتی؛ اس لئے کہ یہ استطاعت واختیار سے باہر کی چیز ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تمام بیویوں کے ساتھ عملی طور پر مکمل مساوات کا معاملہ فرماتے تھے، تاہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تعلق خاطر زائد تھا، اس لئے یہ دعا بھی کرتے تھے کہ اے اللہ! جتنا میرے امکان میں تھا میں نے برابری رکھی؛ لیکن جو بات میری طاقت سے باہر ہے (قلبی میلان) اس پر میرا مؤاخذہ نہ فرمائیے۔ (ترمذی: کتاب النکاح: باب ما جاء فی التسویۃ بین الضرائر) لیکن اختیاری امور میں عدل نہ کرنا سنگین جرم ہے، اس پر وعید آئی ہے۔ فرمایا گیا: اِذَا کَانَتْ عِنْدَ الرَّجُلِ اِمْرَأتَانِ، فَلَمْ یَعْدِلْ بَیْنَہُمَا، جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَشِقُّہٗ سَاقِطٌ۔ (ایضاً) ترجمہ: جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں عدل نہ کرے، تو وہ قیامت کے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو لٹکا ہوا اس کے ظلم کا