اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
تعدد ازدواج کی ایک وجہ شادی کے قابل عورتوں کی فاضل تعداد ہے، ہم بلاخوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب عورتوں کی کم وبیش مستقل اور قابل لحاظ اکثریت ہوگی تو تعدد ازدواج کی لازماً اجازت ہوگی‘‘۔ (ذکریٰ: اسلام کا خاندانی نظام نمبر۱۵۰، نومبر ۲۰۰۶ء) حاصل یہ ہے کہ مردوں سے عورتوں کا تناسبِ تعداد بڑھ جانے کی مشکل کا موزوں حل اسلام کے اسی نظام تعدد میں ہے، اس کے علاوہ بیوی کے دائم المرض یا بانجھ ہونے کی صورت میں اگر مرد کو دوسری شادی کی اجازت نہ دی جائے تو اس کا نتیجہ بے راہ روی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ اسی طرح بیوہ اور مطلقہ عورتوں کے مسائل کا حل اگر دیکھا جائے تو دوسرے عقد میں ہے، غیر شادی شدہ مردوں سے عقد ثانی ہو تو بہتر ہے، مگر بالعموم ایسا ہو نہیں پاتا، اب اگر بیواؤں اور مطلقہ عورتوں کو بے نکاح رکھا جائے تو ان کے مالی اور جنسی مسائل کا حل کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ بے نکاحی زندگی بتدریج انہیں حرام راستوں پر لے جاسکتی ہے، اس لئے مسائل کا حل اسی میں ہے کہ ان کا دوسرا عقد کردیا جائے، خواہ یہ عقد شادی شدہ مرد ہی سے کیوں نہ ہو۔ اس کے سوا بدصورت یا نادار خواتین یا وہ عورتیں جن کا عقد کسی وجہ سے نہیں ہوپارہا ہے، ان کا نکاح ان مردوں سے آسان ہوتا ہے جو پہلے سے شادی شدہ ہوں ، اور کسی معقول وجہ سے عقد کے خواہاں ہوں ۔ مزید براں خوش حال، تندرست اور خوش خوراک مردوں کی جنسی خواہش عموماً ایک بیوی سے مکمل ہونا مشکل ہوتا ہے، ایسے میں اگر ان کو دوسرے عقد کی اجازت نہ ہو تو وہ غلط طریقے اپناسکتے ہیں ، ان کی اس مشکل کا حل دوسری شادی ہی ہوسکتی ہے۔ کبھی مرد وزن میں تعلقات کی تلخی اس درجہ ہوجاتی ہے کہ نباہ ناممکن ہوجاتا ہے، مگر کسی خاص وجہ سے مرد بیوی کو طلاق نہیں دیتا، اور عورت بھی طلاق کا عار نہیں لینا چاہتی، ایسی صورت میں مرد کی فطری خواہش کی جائز تکمیل کی راہ عقد ثانی کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ (مزید تفصیل دیکھئے: معاشرتی مسائل، از: مولانا برہان الدین سنبھلی، ذکریٰ: اسلام کا خاندانی نظام نمبر، مضمون: مولانا حامد علیؒ)