اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
کی رہائش، خرچ اور جنسی جذبات کی تسکین کے مسائل قوموں کو پریشان رکھتے ہیں ، پھر اس بات کی کوئی ضمانت بھی نہیں رہتی کہ یہ عورتیں حرام کاریوں سے اپنے کو محفوظ رکھ سکیں گی، اسی طرح معاشرے میں بسنے والے مرد - خواہ وہ شادی شدہ ہی کیوں نہ ہو- اِن غیر شادی شدہ خواتین کی دعوتِ گناہ پر لبیک کہنے سے اپنے آپ کو بچا سکیں ، یہ بھی انتہائی مشکل ہے۔ ایسے ماحول میں افراد اور معاشرے کو بے راہ روی سے محفوظ رکھنے کا اس کے سوا اور کیا طریقہ ہوسکتا ہے کہ مردوں کو عدل ومساوات کی لازمی شرط کے ساتھ ایک سے زائد عورتوں سے نکاح کی اجازت دے دی جائے؛ تاکہ وہ عورتیں جائز راہ سے اپنے جذبات کی تسکین کا موقعہ پاسکیں اور گناہوں سے محفوظ رہ سکیں ۔ اسلام کے قانونِ تعدد ازدواج کی سب سے بڑی حکمت عورتوں کی فاضل تعداد اور ان کو نکاح کے پاکیزہ بندھن میں باندھ کر ان کو اور پورے سماج کو پاکیزہ بنانا ہے، اور یہ ملحوظ رہے کہ یہ قانون صرف شریعت محمدی کی خصوصیت نہیں ہے، شریعت موسوی وعیسوی میں بھی یہ قانون ملتا ہے۔ سابق انبیاء علیہم السلام کا اپنا عمل اسی کے مطابق موجود ہے، چناں چہ محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قبل حضرت ابراہیم ویعقوب علیہم السلام وغیرہم سے ایک سے زائد شادیاں ثابت ہیں ۔ مشرق ومغرب کے جو نام نہاد مفکرین اس قانون کے مخالف اور یک زوجگی کے پرزور حامی اور وکیل ہیں ان کے دل اخلاقی اقدار کی اہمیت سے اس درجہ نابلد ہیں کہ ان کو فکر اور احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس قانون کی مخالفت سماج کو بدکاری اور زنا کی راہوں پر سرپٹ دوڑانے والی چیز ہے، جائز رشتے کی مخالفت حرام وناجائز رشتوں کی سمت لے جائے گی، اور پورا سماج اخلاقی آوارگی کا مرکب بن کر رہ جائے گا، اسی لئے متعدد مغربی مفکرین اب اسلام کے اس قانون کی وکالت کرنے لگے ہیں ۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں مرقوم ہے: ’’