اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
صرف بستر الگ کرنے کا حکم ہے؛ تاکہ اگر عورت کو تنبیہ ہو تو شوہر سے فوراً معذرت کرسکے۔ (تحفۃ الالمعی شرح ترمذی ۳؍۶۰۳) (۳) اگر یہ سزا بھی مؤثر نہ ہو تو دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے اعتدال کے ساتھ مرد کو یہ اجازت ہے کہ عورت کو مار سکتا ہے، شریعت نے یہ تاکید کی ہے کہ مارنے کا عمل بدرجۂ مجبوری اپنایا جائے، اور مارتے وقت چہرہ، پیٹ اور اعضاء رئیسہ کو نہ چھیڑے، اور ایسی مار نہ ہو جس سے جسم پر نشان پڑجائیں ۔ (ایضا، الفقہ الاسلامی للزحیلی ۷؍۳۴۰) ایک حدیث میں حکم ہے: إِنَّمَا ہُنَّ عَوَانٍ عِنْدَکُمْ فَاضْرِبُوْہُنَّ ضَرْباً غَیْرَ مُبَرَّحٍ۔ (ترمذی: کتاب النکاح: باب ما جاء فی حق المرأۃ) ترجمہ: عورتیں تمہارے پاس قیدی کی طرح ہیں (ضرورت پڑنے پر) ان کو ایسی مار مارو جو سخت نہ ہو۔ حضرت لقیط بن صبرہ صنے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میری بیوی بدزبان ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اسے طلاق دے دو، انہوں نے کہا کہ اس سے میرے بچے ہیں اور ایک مدت سے وہ میرے ساتھ ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اسے سمجھاؤ، اگر اس میں خیر ہوگا تو مان جائے گی، اور دیکھو: اپنی بیوی کو ہرگز اس طرح نہ مارو جیسے کوئی اپنی لونڈی کو (بے دردی سے) مارتا ہے۔ (ابوداؤد شریف) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیویوں کو مارنے کو بالعموم پسند نہیں فرمایا اور منع فرمادیا۔ ایک بار حضرت عمرص نے عرض کیا کہ عورتیں شوخ وگستاخ ہوتی جارہی ہیں ، اس لئے مارنے کی اجازت ہونی چاہئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجازت دے دی، اس رات بہت سی عورتیں گھروں میں ماری گئیں ، صبح کو تمام خواتین نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو جمع کرکے فرمایا: آج ستر عورتوں نے محمد کے گھر والوں کا چکر لگایا ہے، ہر عورت اپنے شوہر کی شکایت